اور کفار اہل ایمان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر یہ (اسلام) کوئی بہتر چیز ہوتی تو یہ ہم سے سبقت نہ لے جاتے اس کی طرف، اور کیونکہ انھیں ہدایت نصیب نہیں ہوئی قرآن سے تو یہ اب ضرور کہیں گے کہ (جی) یہ تو وہی پرانا جھوٹ ہے‘‘۔ (سورۂ احقاف۔۱۱)
غرور اور تکبر نے کفار کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا تھا کہ وہ عقل کل ہیں، جس بات کو وہ پسند کریں وہی پسندیدہ ہے اور جس کو وہ مسترد کردیں اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکنا چاہئے۔ حق و باطل کو پرکھنے کے لئے وہ اپنے آپ کو معیار قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ جب دعوت اسلام لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے لگی اور ان میں اکثریت غلاموں، کنیزوں، غریبوں اور فقیروں کی تھی، تو انھوں نے لوگوں کو اسلام سے دور رکھنے کے لئے یہ کہنا شروع کردیا کہ اگر اس دین میں کوئی خرابی نہ ہوتی تو بھلا ہم اس کو رد کرتے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک اچھی چیز کو قبول کرنے میں یہ لوگ جو علم، تجربہ، دولت، شہرت، ہر لحاظ سے ہم سے فروتر ہیں، سبقت لے جاتے؟۔ ہرگز نہیں۔ ہم نے اسلام کو خوب جانچا ہے، اس میں خرابیاں دیکھی ہیں، جن کی وجہ سے ہم نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اے لوگو! تم خود بتاؤ کہ تم ان غلاموں، مفلسوں، جو بے علم بھی ہیں، کم سمجھ بھی ہیں اور ناتجربہ کار بھی، ان کا منتخب کیا ہوا راستہ اپنے لئے پسند کرنا چاہتے ہو یا جو راہ ہم دانشوروں اور جہاندیدہ افراد اور رؤسا نے اختیار کی ہے، اس پر چلنا چاہتے ہو؟۔
یہ لوگ خود بدنصیب تھے، شقاوت نے ان کو قبول حق سے محروم رکھا، اب ان کی مرضی ہے کہ ساری دنیا اس فیض سے محروم رہے۔ اس لئے وہ بڑی شدومد سے اسلام کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے، ایسا جھوٹ جو صدیوں سے بولا جا رہا ہے۔ خبردار! اس کے نزدیک نہ جانا۔