قران

آپ (ان سے) پوچھئے کیا تم لوگ انکار کرتے ہو اس ذات کا جس نے پیدا فرمایا زمین کو دو دن میں اور ٹھہراتے ہو اس کے لئے مد مقابل۔ وہ تو رب العالمین ہے (اس کا مد مقابل کون ہوسکتا ہے)۔ (سورہ حم السجدہ۔۹)
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اپنی توحید، اپنی قدرت کاملہ اور علم و حکمت کے ایسے دلائل و شواہد پیش کئے ہیں کہ کوئی سمجھدار آدمی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔ ان دلائل کو بیان کرنے کے بعد کفار سے یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ جن کو تم نے میرا ہمسر اور شریک بنا رکھا ہے، جن کی تم پوجا پاٹ کرتے ہو، ذرا انصاف سے بتاؤ ان میں ان صفات عالیہ جلیلہ میں سے کسی صفت کا معمولی پرتو تک بھی موجود ہے؟۔ اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناً نفی میں ہے تو پھر تم سے بڑا ظالم اور احمق کون ہوگا، جو ذرے کو آفتاب کا ہمسر اور قطرے کو سمندر کا ہم پایہ خیال کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ یہ زمین جس پر تم آباد ہو اور جس کی فضا میں تم سانس لیتے ہو، اس کو تمہارے کسی بت نے یا کسی دیوتا نے پیدا نہیں کیا ہے، یہ ساری چیزیں تو کل نیست سے ہست ہوئیں۔ زمین تو تمہارے ان معبودوں کی تخلیق سے پہلے موجود تھی۔ اس وسیع و عریض زمین کا پیدا فرمانے والا اللہ تعالی ہے، جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو تمھیں حیا نہیں آتی کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو اور اپنے ان بتوں کو اس کا ہمسر یقین کرتے ہو۔ نیز اس کو یہ زمین بنانے میں عرصہ دراز صرف نہیں کرنا پڑا، بلکہ دو دنوں میں اس کی آفرینش مکمل کردی۔ اس کی قدرت تو اس کو چشم زدن میں بھی پیدا کرسکتی تھی، لیکن یہ تدریج اس کی حکمت کا تقاضا ہے۔