اور بے شک یونس (علیہ السلام) بھی (ہمارے) رسولوں میں سے ہیں۔ (سورۃ الصفّٰت۔۱۳۹)
حضرت یونس علیہ السلام نے مقدور بھر کوشش کی کہ آپ کی قوم کفر و گمراہی کو چھوڑکر راہ راست پر گامزن ہو جائے، لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ آپ نے انھیں بتادیا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب الہی نازل ہوگا۔ تیسرے روز بغیر اذن الہی وہاں سے چل دیئے، قوم نے آپ کو تلاش کیا، مگر آپ نہ ملے۔ عذاب ابھی نہیں آیا تھا، اس کے آثار آہستہ آہستہ نمودار ہونے لگے تھے۔ قوم میں چند زیرک لوگ موجود تھے، ان کے کہنے پر مرد و زن، پیر و جوان اور شیر خوار بچے سب کھلے میدان میں نکل آئے اور رو روکر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگے۔ اللہ تعالی نے رحم فرمایا، ان کی توبہ کو قبول کیا اور عذاب ٹل گیا۔ حضرت یونس علیہ السلام کو جب پتہ چلا تو خیال کیا ’’اب میں کس منہ سے اپنی قوم کے پاس جاؤں گا، وہ مجھے دیکھیں گے تو جھوٹا کہیں گے‘‘۔ چنانچہ آپ نے کہیں دور چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ بھی اذن الہی کے بغیر تھا۔ ایسی فروگزاشت کسی دوسرے سے قابل برداشت ہو تو ہو، لیکن نبی سے یہ چیز برداشت نہیں کی جاتی۔ آپ کشتی میں سوار ہوئے، کشتی بھری ہوئی تھی، وہ ڈوبنے لگی۔ ملاحوں نے وزن کم کرنے کے لئے ایک آدمی کو دریا میں گرانا چاہا، تاکہ باقی مسافر بچ جائیں۔ اس کے لئے قرعہ اندازی ہوئی اور تینوں بار قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کے نام نکلا۔ آپ سمجھ گئے کہ یہ اس غلطی کی سزا ہے۔ چنانچہ آپ نے چھلانگ لگادی، مچھلی منہ کھولے گویا منتظر تھی، اس نے فوراً نگل لیا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ’’یونس میرا بندہ تھا اور وہ ہمیشہ میرے ذکر میں مشغول رہتا تھا، اس لئے ہم نے اسے بچایا، ورنہ وہ قیامت تک مچھلی کے شکم میں ہی رہتا۔ حکم الہی کے مطابق مچھلی آپ کو ساحل تک لائی اور وہاں اُگل دیا۔