قران

یقیناً رحمت سے توجہ فرمائی اللہ تعالیٰ نے (اپنے) نبی پر نیز مہاجرین اور انصار پر جنھوں نے پیروی کی تھی نبی کی مشکل گھڑی میں اس کے بعد قریب تھا کہ ٹیڑھے ہوجائیں دل ایک گروہ کے ان میں سے پھر رحمت سے توجہ فرمائی ان پر، بیشک وہ ان سے بہت شفقت کرنیوالا رحم فرمانے والا ہے۔(سورۃ التوبہ : ۱۱۷)
عسرۃ کہتے ہیں تنگی اور شدت کو۔ ساعۃ عسرۃ سے مراد غزوہ تبوک کا زمانہ ہے جبکہ مسلمان طرح طرح کی مشکلات میں گھرے ہوئے تھے۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ سفر بڑا طویل اور کٹھن تھا۔ قیصر روم کے لشکر جرار سے مقابلہ تھا۔ سواریوں کی ازحد قلت تھی۔ یہاں تک کہ دس آدمیوں کیلئے ایک اونٹ تھا ۔ اور  ایسا وقت بھی آیا جب دو آدمیوں کو صرف ایک کھجور پر رات دن بسر کرنا پڑا۔ پانی اتنا کمیاب تھا کہ سواری کے اونٹ ذبح کرکے ان کے پیٹ میں جو پانی ہوتا اس سے اپنی پیاس کو بجھایا کرتے۔ ایسے مشکل وقت میں منافقین کو تو جھوٹے بہانے بناکر گھر بیٹھ رہنا ہی تھا، حالات کی سنگینی کی وجہ سے بعض مخلص مسلمانوں کے دلوں میں بھی خیال پیدا ہوا کہ وہ بھی شریک سفر نہ ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کو مضبوط کر دیا اور ان کے دلوں سے اس شیطانی وسوسہ کو نکال دیا۔ اور محض توفیق الٰہی کی یاوری سے وہ جہاد میں شریک ہوئے۔ انہیں میں سے ایک ابو خیثمہ تھے یہ بھی مخلص مومن ہونے کے باوجود حضور (ﷺ) کے ہمرکاب جہاد پر روانہ نہ ہوئے۔ ایک روز جب دوپہر کے وقت گھر آئے اور دیکھا ان کی دونوں بیویوں نے اپنے اپنے چھپر کے نیچے چھڑکاؤ کیا ہوا ہے اور ٹھنڈے پانی کی صراحیاں رکھی ہوئی ہیں اور لذیذ کھانا تیار ہے تو کچھ سوچ کر دہلیز پر ہی رک گئے اور اپنے دل سے کہنے لگے صدحیف ! اللہ تعالیٰ کا محبوب تو چلچلاتی دھوپ اور گرم لو میں سفر کی تکلیفیں برداشت کررہا ہو اور ابو خیثمہ کیلئے ٹھنڈی چھاؤں میں پلنگ بجھا ہوا ہو  بخدا یہ انصاف نہیں۔ پھر انہوں نے اپنی بیویوں کو فرمایا کہ ابو خیثمہ جب تک اپنے حبیب (ﷺ) کے ساتھ جاکر نہ ملے وہ اب ٹھنڈے سایہ میں نہیں بیٹھے گا۔ چنانچہ اونٹنی پر سوار ہوئے اور تبوک کی راہ لی۔ جب وہ کچھ نزدیک پہنچے تو صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ سوار تو ہماری طرف آتا معلوم ہوتا ہے۔ حضور (ﷺ) نے فرمایا یہ ابو خیثمہ ہوگا۔ جب وہ قریب ہوئے اور صحابہ نے پہچانا تو عرض کی بخدا یہ تو ابو خیثمہ ہی ہے ۔