قران

اور بلا شبہ مذاق اُڑایا گیا رسولوں کا آپ سے پہلے، پھر گھیر لیا انھیں جو مذاق اُڑاتے تھے رسولوں کا اس چیز نے، جس کے ساتھ مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ آپ فرمائیے سیر کرو زمین میں پھر دیکھو کیسا ہوا انجام (رسولوں کو) جھٹلانے والوں کا ۔(سورۃ الانعام۔۱۰،۱۱)
اللہ تعالی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دے رہا ہے کہ یہ عناد، یہ انکار اور یہ مذاق و تمسخر جس سے آپ کو واسطہ پڑ رہا ہے کوئی نئی چیز نہیں۔ آپ سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ منکرین حق کا یہی سلوک رہا ہے۔ وہ گستاخیوں کے باعث کردیئے گئے اور ان کا انجام بھی یہی ہوگا کہ نیست و نابود کردیئے جائیں گے۔ قرآن حکیم نے بارہا زمین میں سیر و سیاحت کا حکم دیا ہے، لیکن صرف تفریح طبع کے لئے نہیں، بلکہ عبرت پزیری کے لئے۔ لہو و لعب کے لئے نہیں، بلکہ علمی مقاصد اور تاریخی نتائج اخذ کرنے کے لئے، تاکہ گزری ہوئی قوموں کے مسمار شدہ محلات، باغات، قلعوں اور شہروں کو دیکھ کر ہم اپنی اصلاح کریں اور ہمیں وہ روز بد نہ دیکھنا پڑے، جو اللہ تعالی کی نافرمانی کی سزا میں انھیں دیکھنا پڑا تھا۔ اس نیت سے سیر و سیاحت کرنا باعث ثواب اور موجب رضائے الہی ہے۔ چنانچہ علامہ قرطبی نے صراحت کی ہے کہ ایسا سفر مستحب ہے، جو گزری ہوئی امتوں اور اجڑے ہوئے شہروں کے آثار اور کھنڈرات دیکھ کر عبرت حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔ (القرطبی)
یہاں بھی کفار کو حکم دیا جا رہا ہے کہ تم حق کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہو اور روشن دلائل کے باوجود تم باطل سے چمٹے رہنے پر مصر ہو۔ ذرا زمین میں چل پھرکر دیکھو کہ ان قوموں کا کتنا دردناک انجام ہوا، جنھوں نے اللہ تعالی کے رسولوں کو جھٹلایا۔