یہ قطع تعلق ( کا اعلان ) ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان لوگوں کو جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا مشرکوں میں سے ۔ ( سورۃالتوبۃ :۱ )
حضور کریم (ﷺ) نے عرب کے تمام قبائل کے ساتھ امن اور دوستی کے معاہدے کیے لیکن وہ ان معاہدوں کا احترام شاذ و نادر ہی ملحوظ رکھا کرتے اور جب کبھی انہیں موقع ملتا مسلمانوں کو زک پہنچانے سے گریز نہ کرتے۔ جب حضوؐر تبوک کے سفر پر روانہ ہوئے جو مدینہ طیبہ سے سینکڑوں میل دور تھا اور قیصر کی فوج سے نبردآزما ہونے کا ارادہ تھا تو شرک و کفر کے پرستار وں کو یقین تھا کہ قیصر مسلمانوں کو پیس کر رکھ دے گا اس لیے وہ طرح طرح کی جھوٹی افوا ہیں پھیلانے اور ہر ممکن ذریعہ سے عہد شکنی کرنے لگے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ حضور اپنے غلاموں کے ہمراہ مظفر ومنصور واپس تشریف لائے۔ اب فیصلہ طلب امریہ تھا کہ کیا ان مارہائے آستین کو کھلی چھوٹ ملی رہے کہ جس وقت موقع دیکھیں اسلام دین اور اسلامی ریاست کو ڈستے رہیں ۔ اس لیے تبوک سے واپسی کے بعد جب ذیقعد سنہ ۹ھ میں مسلمانوں کا قافلہ سفر حج پر روانہ ہو چکا تو یہ آیات نازل ہوئیں جن میں صاف صاف حکم دیا گیا تھا کہ اب کفر کے ساتھ سابقہ معاہدے منسوخ ہیں۔ حضور اکرم (ﷺ) نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو روانہ فرمایا کہ حج کے دن یہ اعلان عام کردیں۔ حضرت صدیق ؓ اپنے قافلہ سمیت مکہ کی طرف جا رہے تھے کہ اونٹنی کے بلبلانے کی آواز کان میں آئی۔ فوراً پہچان گئے اور فرمانے لگے یہ تو میرے رسول مکرم ﷺکی اونٹنی کی آواز ہے۔ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ قریب پہنچے تو پوچھا کیا آپ کو امیر بنا کر بھیجا گیا ہے یا مامور بنا کر؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بتایا امیر الحج آپ ہی ہیں میں تو مامور بن کر آیا ہوں اور دسویں ذی الحجہ کو جمرۃ العقبہ کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا اے لوگو! میں اللہ کے رسول کا پیغامبر بن کے آیا ہوں اور اس سورۃ کی ابتدائی تیس (یا چالیس) آیتیں تلاوت فرمائیں۔ اور اس کے بعد کہا کہ مجھے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ تمہیں یہ حکم بھی سنا دوں:۱۔ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کعبہ کو نہ آئے۔۲۔ کوئی برہنہ ہوکر طواف نہ کرے۔۳۔ اہل ایمان کے بغیر کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہوگا۔۴۔ اور جس کے ساتھ کوئی معاہدہ ہے اگر اس نے عہد شکنی میں پہل نہ کی تو اس کا عہد پورا کیا جائے گا اور جس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں اسے چار ماہ کی مہلت ہے۔