اور اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تم کم ہمت ہوجاؤ گے اور اکھڑ جائے گی تمھاری ہوا اور ہر مصیبت میں صبر کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورۃ الانفال :۴۶)
قرآن حکیم تو واضح طور پر ارشاد فرما رہا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا رعب دشمن کے دل پر چھایا رہے، تمہاری ہوا بندھی رہے، اور تمہارے اتحاد و اتفاق کی بنیاد متزلزل نہ ہوتو اطاعت رسول کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو۔ یہی ایک سپر ہے جس پر تم اہواء و اغراض کے تیروں کو سہار سکتے ہو۔ اور ہمارے عصر حاضر کے ماہرین قرآن ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ انتشار و افتراق کی یہ وبا جو اسلامی کیمپ میں قیامت ڈھا رہی ہے یہ سنت رسول سے سرتابی کا نتیجہ نہیں جس میں عملی طور پر امت کا اکثر حصہ مبتلا ہے بلکہ اتباع سنت کی شامت ہے۔ اب خدا کے یہ سادہ دل بندے کیا کریں۔ قرآن کی صاف اور کھلی ہوئی بات مانیں یا معارف قرآنی کے ان شارحیں کی نکتہ آفرینیوں کو تسلیم کریں؟
اس آیت میں جو ارشادات فرمائے گئے ہیں ان پر کار بند ہونا آسان کام نہیں۔ قدم قدم پر شیطان نے جال بچھا رکھے ہیں۔ صبر کے بغیر اس پر خار وادی کو طے کرنا ناممکن ہے اس لیے صبر و استقامت کی تلقین کی جا رہی ہے۔ آخر میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت فقط انہی کے شامل حال ہوتی ہے جو مشکلات اور مصائب کا بڑی مردانگی سے مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔