اے لوگو ! ہم نے پیدا کیا ہے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے اور بنادیا ہے تمہیں مختلف قومیں اور مختلف خاندان تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکوتم میں سے زیادہ معزز اللہ کی بارگاہ میں وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے …۔ (سورۃ الحجرات ۔ ۳ ۱)
دورِ جاہلیت کے عرب دیگر گوناگوں خرابیوں کے ساتھ ساتھ تفاخر کی بیماری میں بُری طرح مبتلا تھے ۔ وہ اپنے آپ کو سب سے برتر ، اشرف اور اعلیٰ خیال کرتے ۔ ان سب میں قریش کے فخر و مباہات کی شان ہی الگ تھی جب مکہّ فتح ہوا اور اس کی فضائوں میں اسلام کا پرچم لہرانے لگا تو حضورؐ نے حضرت بلالؓ کو یاد فرمایا اور حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ جاؤ اور اذان دو ۔ تعمیل ارشاد میں بلالؓ نے کعبہ کے اُوپر چڑھ کر اذان دینی شروع کی تو شُرفائے قریش پر کوہِ اَلم ٹوٹ پڑا ۔ ان کے دِلی حُزن و ملال کا اندازہ لگائے جو اُن میں ہوا ۔ عَتّاب بن اَسَید بولا اﷲ کا شکر ہے میرا باپ یہ رُوح فرسا منظر دیکھنے سے پہلے مرگیا ۔ حارث ابن ہشام کہنے لگا کہ اس کالے کوّے کے بغیر محمد (فداہ ابی و اُمّی) کو اور کوئی مؤذّن نہیں ملا ۔ سُہیل ابن عمرو نے کہا جیسے اﷲ کی مرضی ۔ ابوسفیان نے کہا میں تو کچھ نہیں کہتا۔ ایسا نہ ہوکہ ہماری اس گفتگو پر اﷲ تعالیٰ اس کو آگاہ کردے۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور ان کے اس زعمِ باطل کو پاش پاش کرکے رکھ دیا۔ وطنیت ، قوم ، رنگ ، نسل اور زبان کے بُتوں کی پُوجا آج بھی اسی زور و شور سے ہورہی ہے ۔ اس مختصر سی آیت میں ان تمام بنیادوں کو منہدم کرکے رکھ دیا جن پر مختلف قوموں نے اپنی اپنی برتری اور شرافت کے ایوان تعمیر کر رکھے تھے ۔ کسی خاندان میں پیدا ہونا ، کسی زمین کا باشندہ ہونا اور چہرے کی کوئی خاص رنگت اس میں انسان کی اپنی کوشش اور سعی کا کوئی دخل نہ تھا اس لیے قرآنِ کریم نے اس کو وجہ افتخار قرار نہ دیا البتہ ایک چیز ہے جس سے انسان کا مرتبہ دوسرے لوگوں سے برتر اور اعلیٰ ہوجاتا ہے اور اس میں انسان کی ذاتی کوشش کا بھی دخل ہے اور وہ ہے تقویٰ۔ تقویٰ کی بنا پر جو معّزز و محترم ہوگا وہ فخر و غرور سے یکسر پاک ہوگا اور ایسے شخص کا وجود نہ صرف اپنے ملک اور قوم کے لئے باعث خیر و برکت ہوگا بلکہ تمام نوعِ انسانی اس کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتی رہے گی ۔