قران

توبہ جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے ان کی توبہ ہے جو کر بیٹھتے ہیں گناہ بے سمجھی سے پھر توبہ کرتے ہیں جلدی سے پس یہی لوگ ہیں (نظررحمت سے) توجہ فرماتا ہے اللہ ان پر اور ہے اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا بڑی حکمت والا۔ (سورۃ النساء۔۱۷)
توبہ کا لغوی معنی رجوع کرنا اور لوٹ آنا ہے، یعنی جس سمت میں آپ چلے جا رہے ہیں ادھر سے منہ پھیرکر دوسری سمت میں چل پڑیں۔ توبہ شرعی میں بھی یہی معنی ملحوظ ہے کہ انسان گناہ و معصیت کی جس راہ پر اپنی کم عقلی اور کج فہمی کے باعث بھاگا چلا جا رہا ہے، اس سے رخ موڑکر نیکی اور تقویٰ کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے۔ اسی لئے محققین نے توبہ کی قبولیت کے لئے متعدد شروط بیان فرمائی ہیں، جن میں سے اہم یہ ہیں: (۱) ندامت (۲) اس گناہ سے اسی وقت باز آجانا (۳) دوبارہ یہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ (۴) یہ سب کچھ اللہ جل مجدہ سے شرمسار ہوکر کرے۔ ایسی توبہ کو قبول فرمانے کا اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے۔ ’’جہالت‘‘ کا معنی نہ جاننا ہے اور اس سے مراد وہ کیفیت ہے کہ جب انسان رذیل خواہش، ہوائے نفس اور غصہ سے یوں مغلوب ہو جائے کہ اپنے اعمال کے نتائج اس سے پوشیدہ ہو جائیں۔
وقت قریب سے مراد یہ ہے کہ وہ جذبات جن سے مغلوب ہوکر اس نے یہ فعل بد کیا۔ جب ان کی تیزی ختم ہو جائے تو فوراً بارگاہ الہی میں حاضر ہوکر توبہ کرے، لیکن شریعت نے موت کے آثار ظاہر ہونے سے پہلے توبہ کرنے کو صحیح قرار دیا ہے۔ چنانچہ ضحاک سے مروی ہے کہ ’’انسان اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ابھی توبہ کی کیا جلدی ہے، موت سے پہلے توبہ کرلوں گا‘‘۔کیا پتہ کہ موت اچانک ہی آجائے، کیا خبر کہ پیہم نافرمانیوں کی نحوست احساس گناہ کا گلا ہی گھونٹ دے اور توبہ کی توفیق سے محروم کردے۔