قران

آپ فرمائیے (بفرض محال) اگر رحمن کا کوئی بچہ ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کا پجاری ہوتا‘‘۔ (سورۃ الزخرف۔۸۱)
جس طرح اللہ عزوجل اس سے پاک ہے کہ وہ کسی کا بیٹا نہیں، اسی طرح وہ اس سے بھی منزہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، ورنہ خدا واجب الوجود نہ رہے گا، بلکہ ممکن ہو جائے گا اور جو ممکن ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا۔ اس کے خدا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان عیوب سے مبرّا ہو۔ اس مضمون کا ذکر قرآن پاک کے کئی مقامات پر نہایت مدلل اور مؤثر انداز سے کیا گیا ہے، لیکن یہاں یہ مضمون ایک اَچھوتے اسلوب سے بیان کیا جا رہا ہے۔
اے کفار! تم سب جانتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا پرستار اور عبادت گزار ہوں، تم سب معبودانِ باطل کے آستانوں پر سجدہ ریز ہو، ایک میں ہوں کہ تمہارے طعنے سہتا ہوں، تمہاری زبان درازیاں سنتا ہوں، تمہاری زیادتیوں کو برداشت کرتا ہوں، لیکن اس کے باوجود اپنے معبودِ برحق اور اپنے مالک و خالق کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا۔ تم ذرا سوچو! جس کے دل میں اپنے رب کی اتنی محبت اور اتنا عشق ہو، جس کی زبان اپنے مالک کی تعریف میں ہر وقت زمزمہ سنج رہتی ہو، جس کی یاد میں میری راتیں بیت جاتی ہوں، اگر اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو کیا میں اس کے سامنے بے ساختہ طورپر سربسجود نہ ہوجاتا۔ میرا ایسا نہ کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ وہ اس سے پاک اور بہت پاک ہے کہ کسی کو اس کا بیٹا یا بیٹی کہا جائے۔
یہاں شرط بھی محال ہے اور جزا بھی محال ہے اور ایک محال دوسرے محال کو مستلزم ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونا بھی محال اور میرا اس کی عبادت کرنا بھی محال ہے۔ اس آیت کا یہ مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہاں ’’اِنْ‘‘ شرطیہ نہیں، بلکہ نافیہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیں۔ ’’عابدین‘‘ کا معنی ’’آنفین‘‘ ہے، یعنی میں اس کذب و افتراء کو تسلیم کرنے سے سب سے پہلے انکار کرتا ہوں اور اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتا ہوں۔ (قرطبی)