شیطان (جھوٹے) وعدے کرتا ہے ان سے اور (غلط) امیدیں دلاتا ہے انھیں اور نہیں وعدہ کرتا ان سے شیطان مگر فریب کا۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور نہ پائیں گے اس سے بچ نکلنے کی جگہ۔ (سورۃ النساء۔۱۲۰،۱۲۱)
یعنی شیطان کا تو کام ہی صرف وعدہ کرنا اور امیدوں کے سبز باغ دکھانا ہے۔ اس کے بازار کی ساری رونقیں اور اس کی جنسِ عصیاں کی بڑھتی ہوئی مانگ کا سارا دارومدار انھیں کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں اور کبھی نہ برآنے والی امیدوں پر ہے۔ ان آیات کے نزول کا مقصد بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نیکی کی جو صلاحیتیں ہم میں موجود ہیں، ان کو خواب غفلت سے جھنجھوڑا جائے اور ہمیں غیرت دلائی جائے کہ آنکھیں بند کئے جس شیطان کی ہر بات مانتے چلے جا رہے ہو، یہ وہی تو ہے جو تمہارا روز ازل کا دشمن ہے اور اس نے تمھیں اسی دن اپنا نخچیر زبوں بنانے کا اعلان کیا تھا۔ وہ تمہاری متاع عقل و دین کو لوٹتا چلا جا رہا ہے اور تم ہو کہ اپنے رب کریم کی طرف سے منہ موڑکر اپنے اس کھلے دشمن کے پیچھے سرپٹ دوڑتے چلے جا رہے ہو اور یہ دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ وہ خلد بریں سے نکال کر تمھیں سراب وہم و گمان کی طرف لئے جا رہا ہے۔ اگر انسان کا ذوق سلیم بے حس نہ ہوچکا ہو تو خیر و تقویٰ کے جذبات کو سرگرم عمل کرنے کا یہ کتنا مؤثر اسلوب ہے۔ جو ایسی دل ہلادینے والی تنبیہات کے باوجود بھی شیطان کے چنگل سے رہائی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ان کا انجام ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
شیطان کے سارے وعدے تو جھوٹے ہیں، لیکن اللہ تعالی نے جو وعدہ فرمایا ہے وہ یقیناً اسے پورا فرمائے گا۔