اور جو کوئی بدکاری کا ارتکاب کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ طلب کرو (تہمت لگانے والے سے) ان پر چار مرد اپنوں میں سے، پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو بند کردو ان عورتوں کو گھروں میں یہاں تک کہ پورا کردے ان (کی زندگی) کو موت یا بنادے اللہ تعالیٰ ان (کی رہائی) کے لئے کوئی راستہ۔ (سورۃ النساء۔۱۵)
دوسری برائیوں کی طرح زنا بھی جاہلیت میں عام تھا، پیشہ ور عورتیں اپنے مکانوں پر مخصوص پرچم لہرایا کرتیں۔ اس فعل شنیع کے ارتکاب کو (چند ذی شرف خاندانوں کی مستورات کے علاوہ) چنداں معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے اس فعل بد کی روک تھام کے لئے صرف وعظ و نصیحت پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کا ارتکاب کرنے والے کے لئے سنگین سزا مقرر کی۔ لیکن ابتداء ہی میں اس سنگین سزا کا نفاذ نہیں فرمایا، بلکہ آہستہ آہستہ اور تدریجاً۔ ان دو آیتوں (سورۃ النساء۔۱۴،۱۵) میں ابتدائی زمانہ میں جو سزا مقرر ہوئی، اس کا ذکر ہے۔ قتادہ اور کئی دوسرے ائمہ تفسیر کے نزدیک پہلی آیت شادی شدہ عورتوں کے متعلق ہے کہ اگر وہ اس جرم کا ارتکاب کریں تو انھیں ان کے گھروں میں بطور سزا بحکم حاکم نظر بند کردیا جائے، یہاں تک کہ ان کی زندگی ختم ہو جائے یا اللہ تعالی ان کے لئے کوئی دوسرا حکم نازل فرمادے۔ (یہ آخری کلمات اس بات کا صاف پتہ دیتے ہیں کہ یہ عمرقید کی سزا عارضی سزا ہے اور اس کے بعد کوئی دوسری سزا تجویز ہونے والی ہے) دوسری آیت میں غیر شادی شدہ مرد و عورت کی سزا کا ذکر ہے، لیکن یہ سزا تب دی جائے گی، جب جرم ثابت ہو جائے اور اس جرم کا تعلق کیونکہ عزت و آبرو سے ہے، اس لئے اس کے اثبات کے لئے دو نہیں چار گواہوں کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ بعد سورۂ نور کی آیت نازل ہوئی، جس میں غیر شادی شدہ زنا کار عورت اور مرد کی سزا بیان کی گئی اور ان کی سزا رجم مقرر فرمائی۔