رفیعہ نسیم
ہر طرح کی حمد و ثناء اس ذات پاک کیلئے جو ہمارا خالق ، مالک اور رازق ہے جس نے اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے قرآ۔ مجید نازل فرمایا ۔ قرآن مجید لکھنا اور پڑھنا سکھایا اور قیامت تک کیلئے قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ۔ درود و سلام ہو رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ پر جنھوں نے حق رسالت ادا کیااور درود و سلام ہو اس قلب مبارک پر جس پر قرآن مجید نازل ہوا ۔
قرآن عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی بار بار پڑھنا ہیں ۔ دنیا کی کوئی کتاب اس قدر نہ پڑھی گئی اور نہ پڑھی جاتی ہے ۔ قرآن کلام الٰہی کا ایک مشہور نام ہے جس طرح تورات ، زبور ، انجیل آسمانی کتابوں کے نام ہیں۔ قرآن کا دوسرا معنی یہ ہیکہ ایک چیز کو دوسری چیز سے ملانا ۔ قرآن مجید کی آیات اور سورتیں باہم ملی ہوئی ہیں اور اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قوموں سے قوموں کو ملاتا ہے اس لئے اسے قرآن کہا گیا ہے ۔ قرآن کا ایک اور معنی ہے جمع کرنا اور اس میں سابقہ کتب کی تعلیمات کو جمع کیا گیا ہے۔
قرآن اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے ۔ قرآن ایک زندہ جاوید معجزہ ہے اور یہ رب کی طرف سے بندوں کو ملنے والا اﷲ تعالیٰ کا آخری فرمان ہے جو ’’لوح محفوظ‘‘ میں ہے ۔
قرآن کا نزول آخری الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قلب مبارک پر ہوا ۔ پہلی وحی ’’غارِ حرا‘‘ جو مکہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے ۔ …(سورہ العلق ۔ آیت نمبر۱) نازل ہوئی ۔ رمضان المبارک کی ۲۱ تاریخ ، دوشنبہ کی رات ، ۱۰؍ اگسٹ اور ۶۱۰ء تھا ۔ (الرحیق المختوم)
قرآن کو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ حرف بہ حرف نازل کیا ۔ قرآن پاک کا نزول دنیامیں یکبارگی نہیں ہوا بلکہ اﷲ نے اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے (۲۳) سال کے عرصہ میں مکمل کیا۔
عہد نبویﷺ میں قرآن مجید کی آیات کو چمڑا پتھر کیسفید پتلی تختی ، اونٹ کے مونڈھے کی گول ہڈی ، کھجور کی شاخ کے جڑ کے کشادہ حصّے پر لکھا جاتا تھا۔ کاتبانِ وحی کی تعداد (۴۲) تھی ۔ مشہور کاتبانِ وحی حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت ابی بن کعبؓ ، زید بن ثابتؓ ، معاویہ بن ابی سفیانؓ ، ثابت بن قیس بن سماسؓ ، یزیدّ، مغیرہ بن شعبہؓ ، زبیر بن العوامؓ ، خالد بن ولیدؓ ، علاء بن الحضرمیؓ ، عمرو بن العاصؓ ، عبداﷲ بن الحضرمیؓ ، محمد بن سلمہؓ ، عبداﷲ بن عبداﷲ بنی ابی ابن سلولؓ ہیں۔
قرآن کی آخری آیت جو عرفہ کے دن بروز جمعہ بوقت عصر ۶۳۲ء ۔ ۱۰ ہجری میں اُتری … (سورۃ المائدہ ، آیت۳) اس کے تھوڑے عرصے کے بعد آپ ﷺ اس دنیا سے پردہ فرما گئے ۔
قرآن ہی نہیں اُترا بلکہ اس کی ترتیب بھی اُتیر ہے یہ جو قرآن کیترتیب ہے یہ اﷲ کی طرف سے ہے جبرئیل امین کے ذریعہ آپ ﷺ کو دی گئی اس وقت قرآن ایک جلد میں نہیں تھا ایک جلد میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رکھا بالکل اﷲ کے رسول ﷺ کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق جو صحابہ رضی اﷲ عنہم کے سینوں میں محفوظ تھی ۔
جنگ یمامہ میں (۶۰۰) حفاظ شہید ہوئے تو حضرت عمرؓ کو شدید فکر لاحق ہوئی اور انھوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہکر قرآن کو ایک جگہ لکھنے کو کہا اس طرح جمع قرآن کے محرک حضرت عمرؓ ہیں۔
جمع قرآن بعہد صدیقی ۱۲ ہجری میں آنحضرت ﷺ کے ایک سال بعد قرآن کی ترتیب و ترویج کا کام ہوا ۔ مصحف صدیقی کو ترتیب دینے کیلئے مشہور انصاری صحابی حضرت زید بن ثابتؓ کو مقرر کیا گیا اور یہ قرآن کے مکمل حافظ تھے اور انھوں نے قرآن کی مکرر جانچ کی یعنی حفاظ کو جمع کیا اور ان سے سُنکر تحریر کو جانچ کرتے تھے یعنی لکھے ہوئے سے ، اس طرح اس کو ایک اصل شکل میں ایک جلد میں کیا گیا اور جلد کیشکل چوکور تھی اس لئے اس کو ربع کہا گیا۔
مصحف صدیقی کو اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا جو رسول اﷲ ﷺ کو زوجہ محترمہ اور حضرت عمرؓ کی صاحبزادی کی حفاظت میں رکھا گیا اور یہ اصل کاپی تھیاوریہ حضرت عمرؓ کے دور میں رہا ۔ حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ کادور آگیا ۔ حضرت عثمانؓ نے اصل کاپی کو لیکر اس کی ہوبہو آٹھ کاپیاں بنواکر مصر ، مکہ ، بصریٰ ، کوفی، شام ، یمن ، بحرین کو ارسال کیں۔ حضرت عثمانؓ نے ہر شہر کی جامع مسجد میں رکھوائیں یعنی لوگوں کو ایک چیز پر جمع کیا تاکہ لوگ اس کے مطابق چلیں ۔ محصف عثمانی کی تیاری ۳۰ھ میں ہوئی ۔ مصحف عثمانی کے محرک حذیفہ بن ایمانؓ تھے ۔ مصحف عثمانی کے کمیٹی کے ممبر حضرت زید بن ثابتؓ تھے ۔ مصحف عثمانی کے نقل کنندہ زیدؓ ، حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ ، حضرت سعیدؓ ، حضرت عبداﷲ تھے ۔ مصحف عثمانی ۳۵ھ میں نقطے اور اعراب نہیں تھے ۔ اعراب کی ابتداء بعہد مرتضوی میں ہوئی ۔ منزل اور پارہ کی تقسیم صحابہؓ کے عہد میں ہوئی ، اعراف کے موجد بشکل نقاط حضرت ابوالاسود ذئلی تابعیؒ تھے ۔
اعراب کے موجودہ طریقے کا رواج بحکم حجاج بن یوسف گورنر عراق ۷۵ھ میں لگے ۔ آیت کے نشان (O) کی ایجاد حجاج بنیوسف کے زمانے میں ہوئی ۔ پارہ میں ربع ، نصف ، ثلث کی تقسیم حجاج بن یوسف ۷۵ھ میں ہوئی ۔ ( بنیادی قرآنی تعلیم ، محمد ابراہیم نہری )
پہلا قدم خطاطی لکھنے کو خوبصورت بنایا گیا۔ خطاطی ’’خط کوفی‘‘ کو ’’ابن مقلد‘‘ نے ایجاد کی یہاں سے قرآن خطاطی میں لکھنا شروع ہوا ۔ لہجوں میں فرق تھا یہاں سے فن قرأت وجود میں آیا کہ قرآن کو کیسے پڑھا جائے اور جب عجمی لوگ مسلمان ہوئے تو مخارج کا مسئلہ ہوا جیسے ہم لوگوں کے ساتھ ہے اور پھر قرآن کو اس طریقے پر خوبصورت انداز میں پڑھنے کی کوشش کی گئی جیسے اُترا تھا، جس طریقے پر نازل ہوا تھا اوریہ سارے مراحل تھے اصل تحریر کو حفاظت کے ساتھ لوگوں کے سامنے لانے کیلئے ’’کیلی گرافی‘‘ جسے بہت پریکٹس کے بعد خوبصورت انداز میں لکھا گیا جس کو ’’خطِ کوفی‘‘ کہا جاتا ہے اب اس کے بعد اس مرحلے پر جہاں ہم پہنچ چکے ہیں ۔
آج کے دور میں بھی اﷲ تعالیٰ نے حفاظت دو طریقے سے کی ہے ۔ ایک تو پرنٹنگ پریس ملک فہد کامپلکس جس میں قرآن کی پرنٹنگ ہوتی ہے جہاں سے کروڑوں کی تعداد میں چھپواکر تقسیم کئے جاتے ہیں ۔
قرآن کی ریڈنگ کی حفاظت اسطرح ہوئی کہ جس لہجہ پر آپ ﷺ نے پڑھا اسی طرح پڑھا جائے جیسا کہ آپ ﷺ نے لکھوایا تھا وہ تحریر محفوظ رہے ، لکھنے کے اعتبار سے اس میں حسن تو پیدا ہوا لیکن کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ دوسرا طریقہ ریکارڈ نگ ہے نہ صرف الفاظ محفوظ ہیں بلکہ ان کے پڑھنے کاانداز بھی محفوظ ہوگیا ۔ (تعلیم القرآن ۔ فرحت ہاشمی ۔ (قرآن کا تعارف جلد ۲۰۰۵)