قاری ایم ایس خان
قرآن مجید کے جو حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں، ان کی ادائیگی کی اولین شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمارے دِلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور ہماری ہدایت و سرخروئی کے لئے نازل ہوا ہے۔ اس یقین کے پیدا ہوتے ہی قرآن کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آجائے گا، ہمارے فکر و نظر میں تبدیلی آئے گی، پھر ہمیں محسوس ہوگا کہ اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے قرآن مجید سے بڑی کوئی دولت اور اس سے عظیم تر کوئی نعمت موجود نہیں ہے۔ پھر اس کی تلاوت ہماری روح کی غذا اور اس پر غور و فکر ہمارے قلوب و اذہان کے لئے روشنی بن جائیں گے۔ قرآن مجید سے متعلق ایسی ویسی باتیں سوچنا اور اس پر شک کرنا، جیسا کہ ایک حدیث شریف میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس شخص کو قرآن جیسی لاقیمت اور لامتبادل دولت عطا ہوئی اور پھر بھی اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی اور کو اس سے بڑھ کر نعمت ملی ہے، اس نے قرآن کی قدر و منزلت کو نہ پہچانا‘‘۔
قرآن پڑھنے کے لئے خود قرآن مجید میں اگرچہ قراء ت اور تلاوت دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں، لیکن اصل قرآنی اصطلاح ’’تلاوت‘‘ ہے، کیونکہ یہ لفظ صرف آسمانی صحیفوں کے پڑھنے کے لئے خاص ہے، جب کہ قراء ت ہر چیز کے پڑھنے کے لئے عام ہے۔ تلاوت کا لغوی مفہوم ساتھ لگے رہنے اور پیچھے پیچھے آنے کا ہے، جب کہ قراء ت مجرد جمع و ضم کے لئے آتا ہے۔ واضح رہے کہ تلاوت کلام پاک ایک بہت بڑی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کو تروتازہ رکھنے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ قرآن صرف ایک بار سمجھ لینے کی چیز نہیں، بلکہ بار بار پڑھنے اور ہمیشہ پڑھتے رہنے کی چیز ہے، اس لئے کہ یہ روح کے لئے بمنزلۂ غذا ہے۔ قرآن مجید میں تلاوت قرآن کی واضح ہدایت و حکم موجود ہے، جس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی تلاوت مسلسل کرتے رہنا ضروری ہے اور یہ مؤمن کی روح کی غذا، اس کے ایمان کو تروتازہ اور سرسبز و شاداب رکھنے کا اہم ترین ذریعہ اور مشکلات و مصائب کے لئے اس کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔
اس سلسلے میں سب سے ضروری چیز قرآن حکیم کے حروف کی شناخت، ان کے مخارج کا صحیح علم اور رموز و اوقاف قرآنی کی ضروری معلومات کی تحصیل ہے، جسے اصطلاحاً تجوید کہتے ہیں اور جس کے بغیر قرآن مجید کی صحیح اور رواں تلاوت ممکن نہیں۔ پنجگانہ نمازوں میں ’’اللّٰہ اکبر‘‘ کا جملہ ہر نمازی یومیہ تقریباً ۴۲۸مرتبہ پڑھتا ہے، المیہ یہ ہے کہ وہ اسے ہر بار غلط پڑھتا ہے، کیونکہ اسے قطعی طورپر معلوم نہیں کہ اس جملہ میں موجود اسم جلالت کا لام کب پُر اور کب باریک پڑھا جاتا ہے۔ اس طرح ہم اپنے خالق کا اسم ذات ’’اللہ‘‘ صحیح مخرج یا تلفظ کے ساتھ نہیں لیتے، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ’’محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ صحیح ادا نہیں کرسکتے، اس طرح ہم تعوذ و تسمیہ اور قرآنی سورتوں کے صوتی حلیے کو بگاڑکر بے برکتی حاصل کرتے ہیں۔
قوم کے بچے جن سے قرآن پڑھنا سیکھتے ہیں، وہ خود قرآن صحیح پڑھنے کی استعداد نہیں رکھتے اور نہ ہی قرآن پڑھانے والوں کی صحت لفظی جانچنے کا کوئی نظام موجود ہے۔ ہمیں اندازہ ہونا چاہئے کہ قرآن پاک بغیر تجوید کے پڑھا ہوا باعث عذاب یا مکروہ ہو سکتا ہے، بغیر تجوید کے پڑھنے سے نمازیں فاسد ہوسکتی ہیں اور کلمۂ کفر زبان سے نکل سکتا ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ قرآن اور نماز اپنے غلط پڑھنے والوں کو بددعا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’اے اللہ! جس طرح اس نے ہمیں برباد کیا، تو بھی اسے برباد کر‘‘۔ یہ سب کچھ تجوید سے ناواقفیت اور غفلت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
قرآن پاک کی تلاوت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنی حد تک بہتر سے بہتر، اچھی سے اچھی آواز اور زیادہ سے زیادہ خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرے، اس لئے کہ حسن سماعت کا ذوق کم و بیش ہر انسان میں ودیعت کیا گیا ہے اور اچھی آواز و لحن ہر شخص کو بھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیداً ًفرمایا کہ ’’قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو‘‘۔ ساتھ ہی اس معاملے میں کوتاہی پر ان الفاظ میں تنبیہ فرمائی کہ ’’جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ (ابوداؤد)
اس معاملے میں غلو اور ریاکاری اگرچہ مضر ہے، خصوصاً جب اس میں تصنع یا ریا شامل ہو جائیں اور اگر اس کی صورت پیشے کی بن جائے، تو یہ مہلکات میں سے شمار ہونے والی چیز بن جاتی ہے۔ انسان باوضو قبلہ رخ بیٹھ کر تلاوت کرے اور اس کی ابتدا تعوذ سے کرے۔ پھر یہ کہ اس کا دل کلام اور صاحب کلام دونوں کی عظمت سے معمور ہو۔ حضور قلب، خشوع و خضوع اور انابت و رجوع الی اللہ کے ساتھ تلاوت کرے اور خالص طلب ہدایت کی نیت اور قرآن مبین کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے عزم مصمم کے ساتھ قرآن پڑھے اور مسلسل تذکر و تدبر اور تفہیم و تفکر کرتا رہے۔ نفس کی حوالگی و سپردگی کی کیفیت تلاوت کا اصل جوہر ہے۔ قرآن کو ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے۔ چنانچہ علامہ ابن عربی نے احکام القرآن میں ترتیل کی تفسیر میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا، جو قرآن مجید اس طرح پڑھ رہا تھا کہ ایک ایک آیت پڑھتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام سے فرمایا: ’’کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا قول مبارک ورتل القراٰن ترتیلا (سورۂ مزمل) نہیں سنا؟۔ دیکھ لو یہ ہے ترتیل، قرآن مجید کو بطریق ترتیل تلاوت کرنے کا حکم ہے‘‘۔ ترتیل کے لئے لازم شرط یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کیا جائے، لیکن افسوس کہ اس کا ذوق ہمارے یہاں کم ہو چکا ہے۔ اب تو حفظ قرآن غرباء و مساکین کے ایک طبقہ کے لئے صرف پیشہ بن کر رہ گیا ہے۔
ماننے اور پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے سمجھا جائے۔ ظاہر ہے کہ کلام الہٰی نازل ہی اس لئے ہوا ہے اور اس پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کا فہم حاصل کیا جائے۔ پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ جنھوں نے عصری و دنیوی تعلیم پر لاکھوں روپئے خرچ کرڈالے، اپنی زندگی کا اچھا خاصا حصہ صرف کردیا، دنیا کے کئی علوم و فنون حاصل کئے، مادری ہی نہیں بلکہ غیر ملکی زبانیں بھی سیکھ لیں اور اگر خدانخواستہ قرآن مجید کو بغیر تجوید اور بغیر سمجھے پڑھیں تو عین ممکن ہے کہ وہ مجرم گردانے جائیں۔ فہم قرآن کے لئے وسیع ترین اصطلاح جو قرآن میں سب سے زیادہ استعمال ہوئی ہے، وہ ذکر و تدبر کی ہے، چنانچہ خود قرآن اپنے آپ کو جابجا ذکر، ذکریٰ اور تذکرہ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے۔ قرآن مجید تمام ذی شعور انسانوں کو جنھیں وہ ’’اولوالاَلباب‘‘ اور ’’قومٌ یعقلون‘‘ قرار دیتا ہے، تفکر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے۔ فہم قرآن کا دوسرا مرتبہ ’’تدبر قرآن‘‘ ہے، یعنی قرآن کو گہرے غور و فکر کا موضوع بنایا جائے اور اس کے علم و حکمت کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کی کوشش کی جائے، اس لئے کہ قرآن ’’ھدی للناس‘‘ ہے۔ علاوہ ازیں تذکر کے اعتبار سے قرآن مجید جس قدر آسان ہے، تدبر کے نقطۂ نظر سے اسی قدر مشکل ہے۔ اس سمندر میں اُترنے والوں کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ نہ اس کی گہرائی کا اندازہ ممکن ہے اور نہ اس کے کناروں کا سراغ مل سکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ روایت ملتی ہے کہ انھوں نے صرف سورۂ بقرہ پر تدبر میں آٹھ سال صرف کئے۔
ایمان و تعظیم، تلاوت و ترتیل اور تذکر و تدبر کے بعد قرآن مجید کا ایک اہم حق ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے اور ظاہر ہے کہ ماننا، پڑھنا اور سمجھنا، سب فی الاصل عمل ہی کے لئے مطلوب ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم قرآن پاک کی کسی سورۃ یا اس کے کسی حصہ کے حفظ کا مطلب صرف یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اسے یاد کرلیا جائے، بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ اس کا علم و فہم بھی حاصل ہو جائے اور اس پر عمل کی توفیق بھی بارگاہ رب العزت سے ارزانی ہو جائے اور اس طرح قرآن ان کے فکر و عمل دونوں پر حاوی ہو جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ تعلیمات قرآنی کا مکمل نمونہ تھی اور گویا کہ آپﷺ مجسم قرآن تھے۔ غرضیکہ قرآن حکیم سے استفادہ کی صحیح صورت صرف یہ ہے کہ اس کا جتنا علم و فہم انسان کو حاصل ہو، اسے وہ اپنے اعمال و افعال، عادات و اطوار اور سیرت و کردار کا جزو بناتا چلا جائے اور اس طرح قرآن مجید مسلسل اس کے خلق میں سرایت کرتا چلائے جائے۔ لہذا سلامتی کی راہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کا جس قدر بھی علم انسان کو حاصل ہو، اس پر وہ حتی الامکان فوری طورپر عمل شروع کردے، کیونکہ یہی ہمارے اسلاف کا طریقہ اور ان کا عمل و کردار تھا۔ بقول علامہ اقبال:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر