قرآن مجید اور ہم

سید مختار عالم قادری
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف کی تلاوت تو کرتا تھا، لیکن اس سے محظوظ نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میں حضرت جبرئیل علیہ السلام سے قرآن پاک سن رہا ہوں تو میری لذت بڑھ گئی اور اب تو میں یہ سوچ کر پڑھتا ہوں کہ جیسے خداوند عالم سے اس کی باتیں سن رہا ہوں، سو اب ایسا کیف ملتا ہے کہ جیسا پہلے کبھی نہ ملا تھا‘‘۔ (کیمیائے سعادت، باب القرآن)
حضرت سعد بن حبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوری ایک رات اس آیت (وامتازوا الیوم ایھا المجرمون) ترجمہ: ’’(اور حکم ہوگا) اے مجرمو (میرے دوستوں سے) آج الگ ہو جائو‘‘ کو پڑھتے ہوئے گزار دی۔ (کیمیائے سعادت، باب القرآن)
ہمارے اسلاف ایسے بھی گزرے ہیں، جو ہر رات پورے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ہمارے گھر میں قرآن پاک پڑھا جاتا ہے؟، بالغ افراد میں سے کتنے ہیں، جو قرآن مجید پڑھتے ہیں؟، بچوں میں سے کتنے بچے قرآن پڑھتے ہیں؟، کیا بچوں کو قرآنی قصص اور واقعات سنائے جاتے ہیں؟، کیا گھر میں قرآن پاک کی آیات اور احکام سے متعلق باتیں ہوتی ہیں؟، بڑوں یا بچوں میں قرآن پاک کی آیات کا مفہوم سمجھنے یا ترجمہ جاننے والے ہیں؟، کیا گھر میں قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے کچھ کتابیں موجود ہیں؟ (مثلاً ترجمہ، تفسیر، قرآنی مضامین و مقالات)، کیا گھر کے مرد یا خواتین کسی حلقۂ درس قرآن میں حصہ لیتے ہیں؟۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میں نے عرض کیا: ’’ یارسول اللہ! قرآن پاک کی یہ آیت: من یعمل سوئً ایُّجز بہٖ (ترجمہ: جو کوئی (کچھ بھی) بُرا عمل کرے گا، اُسے اس کا بدلہ ملے گا) بہت سخت ہے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تسلی دی کہ ’’مؤمن طاعت کیش کی چھوٹی موٹی لغزشوں کا حساب زندگی کی روزمرہ کی تکالیف سے پورا کردیا جاتا ہے‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب الامراض )