مولانا حبیب عبدالرحمن بن حامد الحامد
قرآن مجید اﷲ کے رسول کے زمانے میں یکجا نہیں تھا ۔ حفاظ کرام کے سینے میں محفوظ تھا۔ حضرت صدیق اکبر جانشین رسول ؐمنتخب ہوئے اور جنگ یمامہ ہوئی ۔کیونکہ مسیلمہ ابن کذاب نے جھوٹا نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس کی سرکوبی کیلئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل اور خالدؓ بن ولید کو روانہ فرمایا ۔ ایک سخت جنگ تھی ، دونوں طرف عرب قبائل تھے اور مسلیمہ کی فوج میں چالس ہزار سے زاید افراد تھے۔ آخرکار وحشیؓ بن حرب ( جس کے نیزے سے حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب) غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے ، اس کے نیزے سے یا قبیلے بنومزینہ کے عبداﷲ ؓ جو ام عمارہ کے بیٹے تھے ان کی تلوار سے مسلیمہ ختم ہوگیا ۔ اس جنگ میں ایک ہزار مسلمان شہید ہوئے اور بارہ ہزار کی تعداد میں مسلیمہ ابن کذاب کے سپاہی مارے گئے ۔ مسلمانوں میں شہید ہونے والے اکثر طلبہ صفہ کے حافظ قرآن تھے ۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اور حضرت عمرؓ کو یہ فکر ہوئی کہ اگر اس طرح حفاظ کرام شہید ہوں تو قرآن کو کس طرح جمع کیا جاسکتا ہے ۔ چنانچہ آپ دونوں نے حضرت زیدؓ بن ثابت کو بلایا ۔حضرت زیدؓ بن ثابت نوجوان تھے ، حافظ قرآن تھے ، بدر کے قیدیوں سے آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا ، ان کو قرآن کے جمع کرنے کی ذمہ داری دی ۔ صحابہ کرام آتے چیدہ چیدہ جو قرآن جمع تھا لاتے اور حضورؐ کی ہدایت کے مطابق کونسی آیت کے بعد کونسی لکھی جائے اس کی نشاندہی کرتے ۔ اس طرح قرآن جمع کیا گیا اور بی بی حفصہ بنت عمر فاروقؓ کے پاس اس کو محفوظ رکھا گیا ۔
حضرت عثمان غنیؓ کے عہد خلافت میں افریقہ کے ممالک فتح ہوئے۔ وہاں سے واپسی پر حضرت حذیفہ بن یمان نے حضرت عثمان غنیؓ کو یہ اطلاع دی کہ یہ عجمی لوگ قرآن کو صحیح طورپر پڑھنے نہیں پارہے ہیں چونکہ اس وقت تک قرآن میں نکات اور اعراب نہیں تھے ۔ یہ اعراب لگوانے کی ذمہ داری ابوالاسود دویلی ۔ یحییٰ المعمر ، عاصم لیشی کو دی گئی اس کے علاوہ حجاج ابن یوسف نے خواجہ حسن بصری سے بھی یہ کام لیا ۔ خلیل احمد نے سکتہ اور تشدید لگوائے ۔ ابوالاسود دویلی نے حضرت علیؓ ابن ابی طالب سے مشورے کے بعد یا ان کی ہدایت پر یہ کام انجام دیا۔ حضرت عثمان غنیؓ نے چار صحابہ کی ایک جماعت بنائی جس میں زیدؓ بن ثابت ، حضرت عبدالرحمن بن حارث بن ہشام ، حضرت سعید ؓ بن عاص، حضرت عبداﷲ بن زبیر شامل تھے ۔ اور ہدایت کی کہ حضرت زید بن ثابت انصاری ہیں اور تین صحابہ مہاجر تو اس کا بھی خیال رکھا جائے ۔ چنانچہ اس جماعت نے جو نسخہ تیار کیا اس کی کاپیاں ملک حجاز میں بھیجی گئی۔ اور چیدہ چیدہ جو قرآن تھا اس کو تلف کردیا گیا۔
شان نزول : قرآن مجید جس کی ابتداء شب قدر میں ہوئی ۔ یک بار بیت معمور میں لوح محفوظ سے اُتارا گیا ۔ پھر حضورؐ کی زندگی میں تئیس۲۳ سال میں جب جب اس کی ضرورت پیش آئی اُتارا گیا ۔ غزوہ بدر سے قبل حضرت عبداﷲ بن حجش نے جب خمس پیش کیا تو حضورؐ نے اسے لینے سے انکار اس لئے کردیا کہ وہ رجب کے آخری دن کے معرکہ میں ہاتھ آیا تھا ۔ رجب کا مہینہ ایام جاہلیت میں بھی محترم تھا۔(رجب ، ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم ) یہ چار مہینے تھے جو قابل احترام اور ان مہینوں میں جنگ و جدال مکمل طورپر بند حد یہ کہ باپ کا قاتل بھی نظر آجائے تو انتقام نہیں لیتے ۔ ان مہینوں کے گذرنے کے بعد لیاجاتا۔ احکام الٰہی آیا :
اے محمدؐ! بلاشبہ احترام کے مہینوں میں جنگ و جدال بُری بات ہے لیکن اس سے زیادہ بُری بات لوگوں کو خانہ کعبہ کی زیارت سے روکنا ہے جیسا کہ ابوجہل نے حضرت سعد بن معاذؓ کو روکنے کی کوشش کی تھی ۔
آپ ؐنے حضرت عبداﷲؓ بن حجش سے وہ مال خمس منگواکر مسلمانوں میں تقسیم کردیا ۔
حضرت اوس بن خولی نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کو اپنی ماں کی مماثلت دیدی ۔ آپؓ کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ فوراً روتی ہوئی حضورؐ کے پاس پہنچی اور کہا اے اﷲ کے رسول کیا میں ان کی زوجیت سے خارج ہوگئی ۔ وحی الٰہی کا نزول ہوا اور صدقہ دینے کا حکم ملا ۔ یا ساٹھ روزے رکھنے کا ، یا غلام آزاد کرنے کا ۔ انھوں نے معذرت خواہی کی ، حضور کے پاس کچھ مال آگیا آپ نے خولہ بنت ثعلبہ کے حوالے کیااور ہدایت کی کہ اوس بن خولی سے کہیں کہ ایسی باتیں نہ کریں۔ چنانچہ اوسؓ بن خولی نے بھی وعدہ کیا جس کو انھوں نے زندگی بھر نبھایا ۔
مکی اور مدنی سورتوں کے تعلق سے بھی یہ بات آئی ۔ مکہ میں نازل ہونے والی آیتوں میں مخاطبت یاایھاالناس سے ہے ۔ اور مدنی آیتوں میں یاایھالذین سے جس میں یہود اور منافقین کا ذکر ہے ۔ وہ مدنی آیتیں ہیں ۔ مدنی آیتوں میں احکاماتِ جہاد ، زندگی گذارنے کے طریقے ، ورثہ میں مال کی تقسیم کے تمام مسائل کھول کھول کر بیان کئے گئے ہیں۔
یہ قرآن حکیم جو ایک سرچشمۂ ہدایت ہے اﷲ کی طرف سے اُمت محمدیہ کیلئے ایک عظْم تحفہ ہے بلکہ سارے عالموں کیلئے راہِ ہدایت ہے ۔ کیا احکاماتِ خداوندی ہیں ۔ اس پر اگر اُمت کاربند ہوجائیتو دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو زیر نہیں کرسکتی ۔
حضرت بی بی عائشہ کی روایت ہے کہ حضور اکرم ؐ قرآن کا چلتا پھرتا عملی نمونہ تھے ۔
اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جن کو اپنی زبان پر ناز تھا ، فرمایا کہ اس جیسی ایک آیت ہی لے آؤ ۔
حضرت علی ابن ابی طالب کو حکم دیا کہ انا اعطینا خانہ کعبہ پر لگادو۔ عرب کے وہ شعراء بار بار پڑھنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا ۔ اﷲتعالیٰ سے دعا ہیکہ ہم کو قرآن کے سمجھنے پڑھنے کی توفیق عطا کرے اور عمل کرنے والا بنادے ۔ آمین