قرآنی ہدایات، عقل انسانی کے مطابق

سید محمد افتخار مشرف
اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کی ہدایت کا اہتمام فرمایا۔ جو صداقت حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے شروع ہوئی، اس کی حقیقت کبھی نہیں بدلی، اس کے ضروری اجزاء (توحید و رسالت اور معاد) ہر دور اور ہر زمانہ میں محفوظ رہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام دین کے تحفظ کے لئے مبعوث کئے گئے۔ دین کی اس اہمیت کے باوجود قرآن مجید نے صراحت سے کہا ہے ’’جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی دین اختیار کرے گا، وہ قبول نہیں کیا جائے گا‘‘۔ (سورہ آل عمران۔۸۵)
اس امر کا اہتمام کیا گیا ہے کہ دین کی اشاعت، دعوت و تبلیغ کے ذریعہ ہو، کسی فرد کو زبردستی دین قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’دین کے بارے میں زبردستی نہیں ہے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۲۵۶) دین کی تفہیم کے لئے قرآن حکیم نے آفاق و انفس سے بے شمار دلائل دیئے ہیں، جن سے توحید باری تعالی، حقانیت نبوت و رسالت اور امکان معاد پر سیر حاصل روشنی پڑتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’عنقریب ہم ان کو خارج کی دنیا میں اور نفس انسانی کے اندر ایسے حقائق سے آشنا کریں گے، جن سے ان پر واضح ہو جائے گا کہ قرآن مجید سچی کتاب ہے‘‘۔ (حم السجدہ۔۵۳)
نظریات کے تحفظ کے لئے دو گُنا عمل کی ضرورت ہوتی ہے: (۱) نظریات کا پرچار (۲) ان کے مقابلے میں پیش آمدہ چیلنجوں کا مقابلہ۔ چنانچہ دین جو ابدی حقائق پر مشتمل نظریات کے مجموعہ کا نام ہے، اس کے تحفظ کے لئے ان دونوں امور کو لازمی قرار دیا گیا ہے کہ پوری امت مسلمہ اسلامی افکار کی تبلیغ کو اپنا مقصد حیات سمجھتے ہوئے انجام دے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’تم بہترین امت ہو، جسے اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ اچھی باتوں کا حکم دو، برائیوں سے روکو اور اللہ پر ایمان لاؤ‘‘ (سورہ آل عمران۔۱۱) لیکن نظم و نسق کا اصول یہ ہے کہ جب کوئی کام سب کے سپرد کردیا جائے تو اس امر کا امکان ہوتا ہے کہ کوئی بھی نہ کرے اور ہر شخص یہ سوچے کہ شاید دوسرا اسے انجام دے دے گا، اس لئے اس امکان کو ختم کرتے ہوئے ضروری قرار دیا کہ ایک جماعت اس کام کے لئے مختص ہونی چاہئے۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے، جو بھلائی کی طرف بلائے، اچھے کاموں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے۔ جو لوگ یہ کام کریں گے، وہی فلاح پائیں گے‘‘۔ (سورہ آل عمران۔۱۰۴)
دوسری طرف تحفظ دین کے لئے قتال مشروع قرار دیا گیا۔ جب خارجی طورپر دین کو خطرات لاحق ہوں یا کچھ قومیں عام لوگوں کے دین قبول کرنے کی راہ میں حارج ہوں اور دین کو ختم کرنے کے درپے ہوں تو انھیں راہ سے ہٹانا اسی طرح ضروری ہے، جیسے انسانی جسم کے کسی ایک حصہ کو آپریشن کے ذریعہ کاٹ کر پھینکنا ضروری ہوتا ہے، جو خود اس حد تک سڑ اور گل گیا ہو کہ اس کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو اور اس کی وجہ سے جسم کے دوسرے حصوں میں زہر پھیلنے کا امکان ہو۔

انسانی عقل کے تحفظ کے لئے قرآن حکیم نے یہ اہتمام کیا ہے کہ انسان کو حصول علم کی طرف متوجہ کیا جائے، چنانچہ پہلی وحی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو اس میں ایمان لانے کا مطالبہ نہیں کیا گیا، بلکہ قرآن مجید نے سب سے پہلا حکم یہ دیا کہ ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے۔ پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا، انسان کو نامعلوم حقائق سے آشنا کیا‘‘ (سورہ اقرأ) ان ابتدائی پانچ آیات میں تین بنیادی امور کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا: (۱) جو کچھ اس سے پہلے لکھا گیا اسے پڑھے (۲) جو نئی باتیں اس نے سیکھی ہیں، انھیں آئندہ نسل کے لئے لکھ لے (۳) معلوم حقائق کے ذریعہ نامعلوم حقائق دریافت کرے۔ لکھنا، پڑھنا اور تحقیق یہی وہ تین چیزیں ہیں، جو انسانی عقل کو جلا بخشتی ہیں۔ علم ہی ایک ایسا امتیازی وصف ہے، جو کی بدولت حضرت آدم علیہ السلام کو خلافت ارضی کی خلعت نصیب ہوئی اور علم نے ہی انسان کو اس قابل بنایا کہ وہ کائنات کی تسخیر کرسکے۔ عقل انسانی کے تحفظ کے لئے سلبی اہتمام یہ کیا گیا کہ ایسی تمام اشیاء کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا، جن سے عقل انسانی پر پردہ پڑجائے اور وہ کام کرنا چھوڑ دے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے‘‘ (ابوداؤد) اللہ تعالی نے انسانوں کو عقل کے ذریعہ ’’سری مخلوق‘‘ سے ممیز کیا اور انسان کو مکلف بنایا، گویا انسان کو احکام الہی کی بجاآوری کی ذمہ داری اس وجہ سے دی گئی کہ یہ عقل و خرد رکھتا ہے، صحیح اور غلط میں امتیاز کرسکتا ہے، نفع و نقصان جان سکتا ہے اور اچھائی و برائی میں فرق کرسکتا ہے۔ جب اللہ تعالی کا انسان سے خطاب محض اس وجہ سے ہے کہ وہ عقل و خرد کی حامل مخلوق ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ خطاب خداوندی سراسر مطابق عقل ہو، تاکہ اس کی صحت جاننے میں انسان کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں جب بھی اللہ تعالی کی طرف سے وحی نازل ہوئی تو اس نے محض عقلی، استدلالی، منطقی، آفاقی، انفسی، تاریخی اور سائنسی دلائل دیئے اور کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ بے سوچے سمجھے وحی کی صداقت کو تسلیم کرلیا جائے۔ خوش قسمتی سے قرآن حکیم ہمیں خود بتاتا ہے کہ قرآن کی صحیح اور سچی تشریح کی علامات اور خصوصیات کیا ہوتی ہیں اور اسے کیونکر پرکھا جاسکتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ’’اگر وہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں کثرت سے اختلاف ہوتا‘‘۔ ’’اگر قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ یقیناً اس کے اندر بیانات کا اختلاف پاتے‘‘ (سورۃ النساء۔۸۲) بیانات کے اختلافات ہمیشہ عقلی اختلافات ہوتے، کیونکہ عقل ہی ان کو معلوم کرتی ہے۔ لہذا ظاہر ہے کہ اس آیت مبارکہ میں اختلافات سے مراد عقلی تضاد ہے، گویا قرآن مجید نے بتایا ہے کہ اس میں عقلی اور منطقی تضاد نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ وہ ایسی صداقتوں کی تعلیم دیتا ہے، جو عقلی طورپر ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ اسلامی احکام تمام تر حکمت و دانش کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’اللہ تعالی جس سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۲۶۹) اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ دین کی سمجھ ایک ایسی اہم چیز ہے، جو ہر کسی کو عطا نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ احکام شرعیہ میں کوئی مصلحت اور حکمت نہیں ہوتی، شریعت کی پابندی کا مقصد محض بندے کی اطاعت شعاری کا امتحان ہے۔
قرآن حکیم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم نے اپنے خطاب کی بنیاد ہی عقل کو بنایا اور احکام الہی ان ہی لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں، جو عاقل ہیں۔ قرآن حکیم نے تمام اسلامی احکام کو عقلی حوالوں اور منطقی دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً توحید کا عقیدہ بنیادی عقیدہ ہے، جس پر دین کی تمام عمارت کی بنیاد کھڑی ہے اور اس عقیدہ پر کسی طرح کوئی مفاہمت ممکن نہیں۔ قرآن حکیم نے تفکر و تدبر اور تعقل کی بار بار دعوت دی، ایک ذرہ سے لے کر آفتاب تک کائناتی امور کے مشاہدے کا حکم دیا۔ اجرام فلکی جس خاموشی اور تیز رفتاری کے ساتھ آسمانوں پر اپنے مقررہ راستوں پر رواں دواں ہیں، بارش سوکھی زمین کی پیاس بجھانے کے لئے برستی ہے، جہاز جو سمندروں کا سینہ چیرتے ہوئے گزرتے ہیں اور انسانی استعمال کی اشیاء سے لدے ہوئے گزرتے ہیں، کھجور کے درخت اپنے پھل سے جھکے پڑے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے ’’تم نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، کھیل تماشے کے لئے پیدا نہیں کیا، ہم نے انھیں حق کے ساتھ تخلیق کیا ہے، لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھے‘‘ (سورۃ الدخان۔۳۸،۳۹) اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم تمام کو قرآن پاک سمجھ کر پڑھنے اور قرآنی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)