قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت

سید شاہ مصطفی علی صوفی سعید قادری

آج کا دور انٹرنیٹ کا دور ہے جس میں ہر لمحہ ایک نیا فتنہ جنم لیتا نظر آرہا ہے۔ ٹی وی‘ فیس بُک‘ واٹس ایپ و دیگر ذرائع ابلاغ کے سہارے شان و عظمتِ خیر البشر صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو گھٹانے سے لیکر عبادات میں کٹوتی کروانے تک وقفہ وقفہ سے شکوک و شبہات پیدا کرتے ہوئے اہل ایمان کو ایک دوسرے کے خلاف لاکھڑا کرنے اور مسلمانوں کے اتحاد کو درہم برھم کرتے ہوئے انتشار پیدا کرنے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے جس کا نتیجہ یہ کہ امتِ مسلمہ حصوں میں تقسیم ہوگئی اور دنیا تمام میں پسپائی اور بدنامیوں و ناکامیوں کا شکار ہورہی ہے۔یہود و نصارٰی اپنی اس سازش کا جشن مناتے ہوئے اپنی بالادستی کا اظہار کررہے ہیں اور مسلمان اپنی ناکامیوں اور بربادیوں پر پست ہمت ہوتا نظر آرہا ہے۔اس پُرآشوب دور میں اگر مسلمان کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ اور رسول کے احکامات پر سختی سے عمل آوری کرے۔اور صحیح قرآنی تعلیمات کا دارومدار آقائے نامدار احمد مختار حضور سرور کائنات نبیٔ آخر الزماں صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سچی و پکی محبت و عظمت میں مضمر ہے۔
چنانچہ جامع ترمذی شریف کی ایک حدیث پاک میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہے: ’’اللہ سے محبت کیا کرو کیونکہ وہ تمھیں نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے اور اللہ کی محبت کی خاطر مجھ سے محبت کیا کرو اور میری محبت کی خاطر میرے اہل بیت سے محبت کیا کرو‘‘۔نیز الفتح الکبیر میں امام سیوطی یہ ارشادنبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نقل کرتے ہیں ’’تم اپنی اولاد کو تین باتوں پرتربیت کرو اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی محبت‘ آپ کے اہلبیت اطہار کی محبت اور تلاوت قرآن‘‘۔یعنی اللہ تک رسائی‘ اُس کا قربِ خاص و نیز دنیا و آخرت میں سرخ روئی حاصل کرنے کے تین زینے ہیں :
پہلا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے محبت ‘
دوسرا :آپ کی اہل بیت اطہار سے محبت اور
تیسرا : قرآن مجید کی تلاوت۔

اہل بیت کون ہیں؟ یہ سوال آجکل موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ اس ضمن میں چند وضاحتی سطور درج ذیل ہیں۔اہل بیت کے لفظی معنٰی ہیں گھر والے۔ مذکورہ بالا قرآنی آیات میں اہل بیت سے مراد اہل بیتِ رسول ہے جس سے متعلق چند وضاحتیں ملتی ہیں:۱) بنی ہاشم جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے یعنی حضرات عباس‘ علی‘ جعفر‘ عقیل اور حارث رضی اللہ عنہم کی اولاد اہلبیت ہے جو اہل بیتِ نسب کہلاتے ہیں۔۲)قرآن میں آیت تطہیر (احزاب۔۳۳) کے نزول کے بعد حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خوبصورت کملی اوڑھے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے اور حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا‘ شیرِخدا حضرت علی رضی اللہ عنہ‘ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی اُس خوبصورت کملی میں داخل فرمالیا اور بارگاہ رب العالمین میں دعا فرمائی یعنی رب العالمین ! یہ میرے اہل بیت اور میرے مخصوصین ہیں تُو اِن سے ناپاکی دور کردے اور انھیں خوب پاک و پاکیزہ بنا۔ یہ دعاء سن کر ام المومنین بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی ’’و انا منھم‘‘ یعنی میں بھی ان میں سے ہوں تو ارشاد نبوی ہوا ’’انک علی خیر‘‘ یعنی بے شک تم بہتری پر ہو بلکہ دوسری روایت میں آپ نے ’’بلٰی‘‘ فرمایا یعنی کیوں نہیں ۔ اس طرح بی بی ام سلمہ و نیز تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اہل بیتِ سکونت ہیں۔۳)جب نجران کے عیسائی حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نبوت کے بارے میں جھگڑنے لگے تو آیت مباہلہ (اٰل عمران۔۶۱) نازل ہوئی جس میں اپنی عورتوں اور بیٹیوں کے ساتھ نکل کر مباہلہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس موقع پر حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم حضرات علی‘ فاطمہ‘ حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ لیکر نکلے اور فرمایا تھا اللھم ھٰؤلآء اھل بیتی یعنی الٰہی یہ میرے گھر والے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی عراقی شخص نے مُحرم (حالت احرام میں رہنے والے) کے بارے میں ایک فقہی مسئلہ دریافت کیا جو مکھی مارنے سے متعلق تھا یعنی یہ پوچھا کہ مُحرم اپنی حالتِ احرام میں مکھی کو مارسکتا ہے یا نہیں؟حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو اسی وقت چند دنوں قبل واقع ہوے معرکہ کربلا یاد آگیا جس میں ان عراقی اشقیاء نے رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے خانوادہ کے سب مَردوں حتیٰ کہ شیر خوار علی اصغر رضی اللہ عنہ کو تک اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بناکرشہید کردیا صرف ایک حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ باقی رہ گئے کیونکہ آپ سخت علالت کی حالت میں بستر بیماری پر تھے اور میدان کارزار میں جانے کے موقف میں نہیں تھے۔لہٰذا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جن کی گُھٹّی میں اہل بیت مصطفی کی محبت کا خمیر تھا حالت احرام میں مکھی مارنے کا مسئلہ دریافت کرنے والے اس عراقی شخص کو آپ نے ڈانٹے ہوئے کہ یہ لوگ مجھ سے مکھی کے قتل کا مسئلہ پوچھتے ہیں حالانکہ کربلا میں ان ہی عراقی لوگوں نے نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرتے وقت نہ یہ سوچا اور نہ کسی سے پوچھا کہ قتل حسین جائز ہے یا نہیں۔ جبکہ حضور اکرمص صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے دونوں نواسوں کو دنیا میں اپنے پھول قرار دیاتھا۔ (بخاری۔احمد ۔ مشکوٰۃ)
ایک اور حدیث پاک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
حسین تو مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔اپنے نانا جان کے اس ارشاد کی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایسی لاج رکھی کہ اپنا سب کچھ لٹاکر دینِ اسلام کو بچا لیا۔
نانا جان کے نورِ نظر کے سامنے جب دینِ حنیف خطرہ میں نظر آنے لگا تو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کی مدافعت میں اپنی اور اپنے اہل و عیال اور خاندان کی جان قربان کردی لیکن باطل کے سامنے سرنہیں جھکایا۔ آپ کی اس عظیم قربانی نے فسق و فجور اور باطل کے پرخچے اڑادئے اور دین حق کو مٹنے سے بچا لیا۔دنیائے اسلام میںمعرکۂ کربلا اپنی نوعیت کا ایک ایسا واقعہ ہے کہ تاریخ عالم میں اس کی کوئی مثال نہیں۔

کوئی چودہ سوسال کے بعد آج کل ایسی گمراہ کن تحریکیں بھی چل رہی ہیں جو تاریخی واقعات کو توڑ مروڑ کر یہ ثابت کرنے میں لگی ہیں کہ یزید پلید حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقابل اسلامی حکومت کا سچا سربراہ اور خلیفہ تھا اور یہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے اور نعوذباللہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں کی جارہی ہیں۔ یزید کی مخالف شریعت حکومت کو نہ صرف سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ اس زمانے کے سارے جلیل القدر صحابہ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر‘ حضرت عبداللہ بن زبیر وغیرہم رضی اللہ عنہم نے بھی قبول نہیں کیا۔ یہ اصحاب رسول اچھی طرح جانتے تھے کہ یزید شریعت محمدی کا نہ تو پابند تھا اور نہ اس کے نفاذ سے اس کو دلچسپی تھی بلکہ اس کی کھلے عام مخالفت بھی کرتا تھا۔ اور ایسے شخص کا اسلامی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے قبول کیا جانا ان پاک ہستیوں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی صحبت بابرکت کے تربیت یافتہ نفوس کے لئے ممکن نہ تھا۔ان حالات میں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ جیسی پاکیزہ ہستی کے لئے یہ کب گوارا ہوسکتا تھا کہ اسلامی مملکت کا سربراہ شریعت محمدی کی کھلی خلاف ورزی کرے اور اس پر اپنی بیعت منوانے پر اصرار کرے اور آپ خاموش بیٹھے رہیں۔ادھر کوفہ والوں کی جانب سے آپ کی خدمت عالیہ میںسینکڑوں خطوط موصول ہورہے تھے جن میں یزید کی حکومت کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی جارہی تھی بلکہ آپ کو بار بار کوفہ آنے کی دعوت دی جارہی تھی جس پر آپ نے وہ اقدام کیا کہ اس وقت آپ ہی وہ قدم اٹھاسکتے تھے۔آج کے چند یہودی پرست لوگ اپنی منطق کے ذریعہ اس طرح گمراہ کررہے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزید پلید ایک ڈال کے دو پھول اور ہم مرتبہ و مماثل ہیں اور یہ پُرفریب استدلال پیش کررہے ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ڈال (بنوعبدمناف) کے دو پھول ہیں کچھ عجب نہیں کہ کل کے روز بصیرت سے محروم یہ لوگ حضرت حمزہ و حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو دشمن رسول ابولہب کا ہم درجہ و مماثل بتائیں گے۔ چنانچہ یزید پلید کی تخت نشینی ہی نہ صرف عدل و انصاف کی کھلی خلاف ورزی تھی بلکہ عدل کے معاملہ کو تباہ کرنے کے لئے اٹھایا گیا پہلا قدم تھا۔خلافت کو خیر باد کرتے ہوئے بادشاہت قائم کرنے والے اس یزید پلیدکے بدکردار اور ظالم و فاسق ہونے کی ناقابل انکار تصدیق احادیث شریف‘ صحابہ کرام کے ارشادات اور معتبر مورخین علماء کے تحقیقی اقوال کے ذریعہ ہوجاتی ہے۔ ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں:میری امت کی ہلاکت چند بیوقوف لڑکوں کے ہاتھوں سے ہوگی۔پہلاوہ شخص جو میری سنت کو بدلے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا۔تاریخ الخلفاء میں تو صراحت کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ارشاد کچھ اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ پہلا وہ شخص جو میری سنت کو بدلے گا وہ بنی امیہ سے ہوگا جس کو یزید کہاجائے گا۔ ابن کثیر کی تصنیف ’’بدایہ نہایہ‘‘ میں رقم ہے میری امت کا معاملہ عدل کے ساتھ قائم رہے گا حتٰی کہ پہلا شخص جو اس کو تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جو یزید کہلائے گا۔
کتب حدیث و تاریخ میں یزید کی بدکاری‘ شراب خواری اور بداخلاقی کا ذکر موجود ہے ان سب کے علاوہ شکار کھیلنا‘ بندروں ‘ کتوں اور رینچھوں کو پالنا اس کی پسندیدہ عادتیں تھیں۔شراب کے بغیر تووہ زندہ نہیں رہ سکتاتھا۔ اس شرابی کے دور میںبیہودگیاں اس حد تک پہنچ گئی تھیں کہ سوتیلے باپ بیٹی اور بھائی بہن کے مابین نکاح انجام پارہے تھے۔ حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تو یزید اس قدر آپے سے باہر ہوگیا تھا کہ اس نے حرام کاری‘ لواطت و زنا‘ سود کے لین دین و نیز شراب نوشی وغیرہ کو علانیہ طو پر ائج کردیا اور لوگوں میں نمازوں کی پابندی اٹھا دی گئی تھی۔۶۳ ہجری میں یعنی معرکہ کربلا کے بعد جب اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑدی تھی اُس پلید نے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ پر حملہ کروایا جس میں دس ہزار اہل مدینہ شہید ہوگئے جن میں ۷۰۰بے گناہ صحابہ کرام بھی شامل تھے۔ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے جن کی گندگی کی وجہ سے تین دن تک مسجد نبوی میں نماز ادا نہ ہوسکے۔ شریعت کے خلاف اتنی ساری سنگین خلاف ورزیوں کے باجود آج کبھی تو صحابی زادہ کے عنوان سے تو کبھی حدیث قسطنطنیہ کا سہارے لے کر اُس پلید کو جنتی بتانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔آخری بات حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اہل بیت پاک کو سفینۂ نجات اور صحابہ کرام کو تاروں کے مانند فرمایا لیکن صحابی زادے یزید کے فضائل پر کوئی ارشاد نہیں جبکہ اہل بیت اطہار کے کئی فضائل بیان کئے جاچکے ہیں چنانچہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان محبت اہل بیت اہل بیت اطہار کی کشتی میں سوار ہوکرصحابہ رضی اللہ عنہم کے ستاروں کی روشنی میں حوض کوثر تک ان شاء اللہ جاپہنچے گا۔

 

جہاں تک حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کا تعلق ہے تو اِن سرداران جنت کے فضائل و مناقب میں بے شمار ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم موجود ہیں۔فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما اور اُن لوگوں سے بھی محبت فرما جو کہ ان دونوں سے محبت رکھیں‘‘(مشکوٰۃ)۔ان دونوںشہزادوں کو کبھی تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سونگھتے چومتے اور سینہ سے چمٹاکر فرمایا کرتے کہ ’’حسن و حسین دونوں میرے پھول ہیں جو خدانے مجھے دنیا میں عطا فرمائے ہیں‘‘ ۔

حضور رسول کریمصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو اپنے دونوں نواسوں یعنی حضرات امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما سے کس قدر پیار تھا اس بارے میں کئی احادیث شریفہ کتب حدیث کے صفحات پر جگمگارہی ہیں۔چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث پاک میں:
’’: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو آپ کے (وداعی) حج میں عرفہ کے دن دیکھا جبکہ آپ اپنی اونٹنی قصواء پر خطبہ دے رہے تھے۔ پھر میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا کہ ’’اے لوگو میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں کہ جب تک تم ان کو تھامے رہوگے گمراہ نہ ہوگے (یعنی) اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اہلبیت۔‘‘
ترمذی شریف کی ہی ایک اور حدیث میںحضرت ابو سعیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:
’’حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
روایت ہے یعلیٰ بن مرہ سے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے :
’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے‘ اللہ اُس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت رکھتا ہے۔ حسین اک نواسہ ہے نواسوں میں سے‘‘ (ترمذی)
فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے
’’ایک فرشتہ تھا کہ زمین پر کبھی نہ اترا تھا۔ آج کی رات اس نے اجازت مانگی رب سے کہ مجھ پر سلام کرے اور بشارت دی کہ فاطمہ سردار ہے جنت کی عورتوں کی اور حسن اور حسین سردار ہیں جنت کے جوانوں کے۔(ترمذی )
حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں جنت کے دو پھول ہیں جو مجھے دنیا میں عطا فرمائے گئے ہیں کہ ان کے جسم سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم انھیں سونگھا کرتے تھے جیسا کہ ترمذی کی ایک حدیث کے الفاظ میں ’’فیشمھما و یضمھما‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنے دونوں شہزادوں کو سونگھتے اوراپنے سینے سے چمٹا لیا کرتے تھے۔عام طور پر دنیا میں سب لوگ اپنے دلاروں کو چومتے ہیں لیکن آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنے پیارے نواسوں کو سونگھا کرتے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ پھول سونگھے ہی جاتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ’’یا ابا ریحان‘‘کے الفاظ سے مخاطب فرماتے یعنی اے دو پھولوں کے والد۔ اب کسی مسلمان کو اس جنتی خوشبو کا صدقہ حاصل کرنا مقصود ہو تو چاہئے کہ اہلبیت پاک خصوصا امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی سچی محبت کا چراغ اپنے دل میں روشن رکھے جو خدا اور رسول کی محبوبیت حاصل کرنے کا ذریعہ اور دارین میں سرخرو ہونے کاوسیلہ ہے۔کیونکہ درود ابراھیمی میں آل رسول کا ذکر شامل کئے بغیر ہماری نماز تک پوری نہیں ہوتی۔

سورئہ احزاب کی (۳۳) ویں آیت میں ارشاد ربانی ہے
یعنی ’’یقینا اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہرناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے‘‘۔ ایک اور جگہ سورئہ شورٰی آیت ۲۳ میںارشاد ہے : یعنی اے محبوب( صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ) آپ فرمادیجئے ! اس (دین متین پہنچانے )پر میں تم سے کچھ اجرت طلب نہیں کرتابجز قرابت کی مودت (جی جان سے محبت) کے۔
مذکورہ بالا آیات میں ایک جگہ اہل بیت کی پاکی کا بیان فرمایا گیا تو دوسری جگہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے قرابت رکھنے والوں سے محبت اور مودت کی ہدایت فرمائی گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جس کی جتنی قرابت زیادہ ہوگی اتنی ہی ان سے محبت اور احترام زیادہ مطلوب ہوگا۔ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلمکے قرابتداروں میں اہل بیت پاک کی سب سے زیادہ عظمت اور فضیلت ہے بلکہ ان کا ادب و احترام عین ایمان ہے۔ اس کی تائید میں کئی احادیث موجود ہیں۔ جن میں نہ صرف اہل بیت سے محبت و ادب کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ اہل بیت کے ساتھ محبت کو رسول اور خدا کی محبت اور ان سے بغض و عدات رکھنے کو رسول اور خدا سے دشمنی قرار دیا گیا ہے۔