قحط سالی اوراسکا علاج

انسان خطا ء ونسیان کا پتلاہے جانے انجانے میںاس سے نافرمانیوں کا صدورہوتا رہتا ہے، کوئی دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ بے خطاء اورگناہوں سے دھلادھلایا پاکیزہ اورصاف ستھرا ہے، ارشاد باری ہے’’تم اپنا پاکیزہ ہونا خود نہ بیان کرووہ خوب جانتاہے کہ کون پرہیزگارہے‘‘۔( نجم۳۲) اپنے نفس کی پاکی کا دعوی وہی کرسکتا ہے جو غروروتکبرمیں مبتلا ہو،ظاہر ہے غروروتکبرکا انجام انسان کو کبھی نہ فائد ہ پہنچایا ہے اورنہ پہنچاسکتا ہے ۔کبریائی اللہ کو زیبا ہے ،’’الکبریاء ردائی ‘‘اللہ سبحانہ ہی انسانوں کا خالق ہے وہی خوب جانتا ہے کہ کون کیسا ہے اورکس درجہ ومرتبہ کاہے،فضیلت کا مدار تو صرف تقوی پر ہے ظاہر پر نہیں،تقوی دل کی کیفیت کا نام ہے ۔سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ نے ’’التقوی ہہنا‘‘تقوی یہاں ہوتاہے فرماکرقلب کی طرف تین مرتبہ اشارہ فرما یا ۔اللہ کے ہاں وہی تقوی قابل اعتبارہے جواس قلبی کیفیت کے ساتھ تادم زیست قائم رہے۔اس لئے اپنی پارسائی وپرہیزگاری بگھارنا اللہ سبحانہ کو نا راض کرلینا ہے،بقول صائب’’ ثناء خوبخودکردندنمی زیبد ترا صائب‘‘کے مصداق خودنمائی وخودستائی نہ کبھی انسان کو زیبا تھی نہ زیبا ہے ،ہر انسان کے ظاہر وباطن کا حال اللہ پر روشن ہے ۔

ایک دوروہ تھا جب گناہ کو گناہ سمجھا جاتا تھا حتی الامکان اس سے بچنے کی کوشش کی جاتی تھی ،بشری تقاضوں کے تحت معصیت ونافرمانی سرزد ہونے پر سخت ندامت ہوتی تھی ،اس لئے ان کو توبہ کی توفیق بھی مل جاتی تھی۔ظاہری علمی چہل پہل بہت کم تھی ،تعلیم وتربیت کا بڑاانحصارخاندان اورمعاشرہ کے بزرگ حضرات پر تھا،لیکن اس معاشرہ کی خوبی یہ تھی اس میں نیکی وصالحیت بدی وگناہ کا واضح تصوردل ودماغ میں مستحضر تھا،ہرکوئی نیکی کو نیکی جان کر اس کو اپنا نے میں اپنی سعادت سمجھتا تھا،بدی وگناہ کوگناہ یقین کرکے سختی کے ساتھ اس سے اجتناب کیلئے کوشاں رہا کرتا تھا ۔
اب صورت حال یہ ہے کہ سماج میں دینی وعصری ہرطرح کی درسگاہیں قائم ہیں ،علمی ترقیات کی وجہ دنیا کا عیش وآرام اورآسودگی کا بڑاسامان ہے لیکن انسان انسانی جوہر سے بڑی حد تک محروم ہے۔نیکی وبدی کے پیمانے بدل گئے ہیں ،عموما نیکیوں کی طرف کوئی رغبت نہیں ہے،گناہوں کی شناعت دل ودماغ سے محوہوگئی ہے،عمومی حیثیت سے معاشرہ گناہوں اوربرائیوں کی آماجگاہ بنا ہواہے ،انسانی اعمال اللہ کی ناراضگی کو دعوت دے رہے ہیں،بارش کا نہ برسنا،زمینوں کا سوکھا پڑجانا ،پانی کا زمین کی انتہائی گہرائیوں میں پہنچ جانے سے انسانی دسترس سے اسکا باہر ہوجانا ،یہ سب انسان کے حق میں اللہ کی ناراضگی کے الارم ہیں،اس سے متنبہ ہوکر خواب غفلت سے جاگنا اوراللہ سبحانہ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ واستغفارکرنا ،اللہ کی زمین کو اسکی نافرمانیوں سے پاک وصاف رکھنے کی سعی کرنا، نیکیوں کو پھیلانا،برائیوں کو مٹانا،یہ وہ کام ہیں جوپھرسے رحمت الہی کو جوش میںلاسکتے ہیں،اوراسکی رحمت کے وہ خزانے جوزمینوں اورآسمانوں میں رکے ہوئے ہیںپھر سے وہ اہل زمین  کی پہنچ میں آسکتے اورانکوراحت پہنچاسکتے ہیں۔ ارشادباری ہے ’’بستیوں میں رہنے والے اگرایمان لے آتے اورتقوی وپر ہیزگاری کو اپنا تے توہم آسمان اورزمین کی برکتیں ان پر کھول دیتے‘‘ ۔(الاعراف:۹۶)ایمان وتقوی وہ عظیم نعمت ہیں جس کی برکت سے آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے خلق خداپر کھل جاتے ہیں،انسانی ضرورتوں کے مناسبت سے آسمان سے باران رحمت کا نزول ہونے لگتا ہے۔جب زمین اس سے سیراب ہوتی ہے تو سرسبزی وشادابی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے،خوب پیداوار ہوتی ہے دانہ واناج اگتے ہیں،پھل پھلارسے درخت لدجاتے ہیں ،پھولوں کی رنگینی خوش کن نظارہ پیش کرتی اور اسکی خوشبو فضائوں کو معطرومعنبربناتی ہے۔

اللہ سبحانہ کی کھلے عام نافرمانی ظاہرہے ایمان وتقوی کے سخت منافی ہے،اس وقت سماج میں سودی لین دین نقلی باباؤں کی دکھوکہ بازیاں،سٹہ ،جوا،شراب نوشی،بے حیائی اوربے پردگی،آبروباختگی یہ اوراس طرح کی کئی نافرمانیاں ہیں جو کھلے عام انجام پارہی ہیں،ویڈیو،ٹیلی ویژن،واٹس اپ،یوٹوب،وغیرہ جیسے فواحش کی اشاعت کرنے والے عوامل معاشرہ اورخاص کر نوجوانوں کو بے حیائی کی راہ پر لے جارہے ہیں،جو اللہ سبحانہ کی ناراضگی کا باعث ہیں، اسکو ناراض کرلینا کوئی آسان بات نہیں اس سے تو انسان کو ہمیشہ خوف کھاتے رہنا چاہئے ،مباداکے بستیوں پر کہیںاللہ کا قہر نازل نہ ہوجائے اوروہ آن کی آن میں تباہ وتاراج نہ کردیئے جائیں،سروروشادمانی سے معموربستیاں کہیںکھنڈرات میں تبدیل نہ کردی جائیں، ہنستی کھیلتی زندگی کہیں موت کے منہ میں نہ پہنچ جائے ۔ارشادباری ہے’’کیا پھربھی ان بستیوں میں رہنے والے اس بات سے بے فکرہوگئے ہیں کہ ان پر ہماراعذاب رات کے وقت آجائے جس وقت وہ سورہے ہوںاورکیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکرہوگئے ہیں کہ ان پر ہماراعذاب دن چڑھے آجائے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں پس کیاوہ اللہ کی اس پکڑسے بے فکرہوگئے ہیں حقیقت یہ ہے اللہ کی پکڑسے بجزان کے جن کی شامت آگئی ہواورکوئی بے فکرنہیں ہوسکتا ‘‘۔(الاعراف:۹۷تا۹۹)
باران رحمت کے نزول کیلئے دنیا بڑی فکرمند تو ہے لیکن اسکے حصول کیلئے کیا کچھ کیا جاناچاہئے اس سے یکسرغافل ہے ،حکومتیں رعایہ کو خوش کرنے کیلئے مادی سہولتوں کا اعلان کررہی ہیں لیکن یہ خوش کن مادی سہارے کچھ کام نہیں آسکتے جب تک کہ اللہ سبحانہ کی ناراضگی دورنہ ہو،اللہ کو منا نے اورراضی کرنے کے سارے طریقے ایمان والوں کے ہاں پہلے ہی سے موجودومحفوظ ہیں۔ایمان والوں کی حیثیت اس دنیا میں گویا چکی کے پاٹ کے درمیان میانی جیسی ہے جس کے اطراف چکی کی پاٹوں کی طرح دنیا گھومتی ہے ،اللہ سبحانہ کی رحمتوں کے نزول کا مدارایمان والوں کی اسلامی پاکیزہ زندگی گزارنے اورمؤمنانہ کردارکے جواہر دکھانے پر موقوف ہے، وہ اگراللہ کو مناتے اورراضی کرلیتے ہیں ،مرضیات رب کے مطابق زندگی گزارنے کا نہ صرف عزم محکم کرتے ہیں بلکہ انسانیت کو بھی اپنی فکرودرد سے اس راہ پر لانے کی سعی ٔ پہم میں مصروف عمل رہتے ہیں تب تو یہ مسئلہ بآسانی حل ہوسکتا ہے ۔نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کی نافرمانیوں کوسہتے ہوئے انھیں اس بات کی تلقین کی کہ اب بھی وقت ہے کہ وہ سنبھل جائیں! ایمان وطاعت کا راستہ اختیار کرلیں ،اپنے رب کی نافرمانیوں پر توبہ و استغفار کرلیں، کہ وہ اپنے بندوں پر بڑارحم کرنے والااوربخشش ومغفرت فرمانے والاہے، ارشادباری ہے ’’میں (نوح )نے کہااپنی قوم سے کہ تم اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی چاہویقینا وہ بڑابخشنے والا ہے ،وہ تم پر آسمان سے موسلادھاربارش برسائیگا،مال واولاد سے وہ تم کو خوب نوازیگااورتمہیں باغات اورنہریں عطاکریگا۔‘‘(نوح:۱۰تا ۱۲)

حضرت سیدنا عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی عہد خلافت میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا تھا تو آپ نمازاستسقاء کیلئے منبرپڑچڑھے صرف آیات استغفار جن میں یہ آیت پاک بھی شامل تھی وردزباں تھیں ۔نمازاستسقاء ادانہیں کی ،خوب برسات نازل ہوئی جس سے زمین جل تھل ہوگئی دریافت حال پر فرمایا کہ بارش کو میں نے ان راستوں سے طلب کیا ہے جو آسمانوں میںہیں اورجن سے زمین پر بارش نازل ہوتی ہے۔حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے کسی نے قحط سالی کی شکایت کی تو انھوںنے جواب میں فرمایا کہ استغفارکرو۔کسی اورنے فقروفاقہ اورمال واولاد کے نہ ہونے کی شکایت کی تو اس کو بھی انھوں نے یہی ہدایت دی ۔ایک اورشخص نے باغات ونہروں کے سوکھ جانے کا شکوہ کیا تو اس کیلئے بھی یہی نسخہ کیمیا تجویزکیا۔(قرطبی:۲۱/۲۵۴،۲۵۵)
الغرض ایمان وتقوی کے نورسے مردہ دلوں کو زندہ وتابندہ کرنے سے مردہ زمینیں اللہ کی رحمت سے پھرسے زندہ ہوسکتی ہیں، احکام الہی کی پابندی ،معاصی سے اجتناب اورپچھلے گناہوں سے سچے دل سے توبہ واستغفاریہ وہ نسخہ جامعہ ہے جو آسمان سے نفع بخش موسلادھار بارش نازل ہونے کا ذریعہ بن سکتاہے،بروقت اورحسب ضرورت نزول رحمت باراں سے قحط سالی دورہوسکتی ہے، تالاب، اوردریا پانی سے لبریزہوسکتے ہیں۔خشک ریگزاروں میں نہریں بہنے لگ سکتی ہیں، باغات ثمرآور،کھیت کھلیان برگ وبار لاسکتے ہیں۔