قبرستان میں نماز جنازہ

حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین ، صدر مفتی جامعہ نظامیہ

سوال : قبرستان میں نماز جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟
جواب : نماز جنازہ چونکہ اور نمازوں کی طرح فرض عبادت ہے اسلئے طہارۃ مکان جس طرح نماز پنجگانہ کیلئے شرط ہے اسی طرح نماز جنازہ کیلئے بھی شرط ہے۔ مقبرہ میں ہر قسم کی نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ اس لحاظ سے نماز جنازہ بھی مقبرہ میں مکروہ ہے ۔
عینی شرح بخاری جلد ۲ صفحہ ۳۵۱ باب مایکرہ الصلاۃ فی القبور میں ہے : و ذھب الثوری و ابو حنیفۃ والاوزاعی الی کراہۃ الصلاۃ فی المقبرۃ۔ بدائع و صنائع جلد اول صفحہ ۱۱۵ کتاب الصلاۃ فصل شرائط الارکان میں ہے : و قد روی عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ نھی عن الصلاۃ فی المزبلۃ والمجزرۃ و معاطن الابل و قوارع الطریق والحمام و المقبرۃ۔ عینی شرح بخاری کی جلد ۲ صفحہ ۳۶۹ میں ہے : عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ الارض کلھا مسجد الا المقبرۃ والحمام ‘‘ ۔ در مختار مطبوعہ برحاشیہ رد المحتار جلد اول کتاب الصلاۃ میں ہے : و کذا تکرہ فی اماکن کفوق الکعبۃ و فی طریق و مزبلۃ و مجزرۃ و مقبرہ اور ممانعت کی وجہ بعض علماء نے یہ بتائی کہ مقبرے عموما نجاستوں سے خالی نہیں ہوتے کیونکہ جاہل لوگ قبروں کی آڑ میں رفع حاجت کرتے ہیں، ایسی حالت میں وہاں نماز مناسب نہیں اور بعض نے یہ کہا ہے کہ اموات کی حرمت و عزت کے خیال سے وہاں نماز مکروہ ہے ۔ عینی کی اسی جلد میں صفحہ ۳۵۲ میں ہے : حکی اصحابنا اختلافا فی الحکمۃ فی النھی عن الصلاۃ فی المقبرۃ فقیل المعنی فیہ ماتحت مصلاہ من النجاسۃ ۔ اسی جگہ ہے : والذی دل علیہ کلام القاضی ان الکراہۃ لحرمۃ الموتیٰ ۔ بدائع صنائع کی جلد اول صفحہ ۱۱۵ میں ہے : و قیل معنی النھی ان المقابر لا تخلوا عن النجاسات لأن الجہال لیستقرون بما شرف من القبور فیبولون و یتغوطون خلفہ فعلیٰ ھذا لا تجوز الصلاۃ لو کان فی موضع یفعلون ذالک لا نعدام طہارۃ المکان۔ البتہ اگر مقبرہ میں کوئی ایسی پاک جگہ ہے کہ جہاں نجاست وغیرہ نہ ہو اور اس میں کوئی قبر بھی نہ ہو اور نمازیوں کے سامنے بوقت نماز کوئی قبر بھی نہ آئے تو وہاں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ رد المحتار جلد اول صفحہ ۲۸۷ کتاب الصلاۃ میں ہے : ولا باس بالصلاۃ فیھا اذا کان موضع اعد للصلاۃ و لیس فیہ قبر ولا نجاسۃ کما فی الخانیۃ ۔ حلیۃ۔
احادیث صحیحہ میں اگرچہ یہ ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اموات کے دفن کے بعد ان کی قبر پر تشریف لیجاکر نماز پڑھی ہے جس سے مقبرہ میں نماز پڑھنا ثابت ہوتا ہے، اسی طرح اگر کوئی میت بلا نماز کے دفن کردی جائے تو اس کی قبر پر تین دن تک نماز پڑھنا درست ہے، جس سے مقبرہ میں نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت ثابت ہوتی ہے۔ مگر ایسا بر بناء ضرورت ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کی نماز جنازہ پڑھنا رحمت تھا اس لئے آپ نے بعض میت کے نماز پڑھاکر دفن کئے جانے کے بعد بھی اس کی قبر پر نماز پڑھی ہے اور یہ فرمایا کہ میری نماز رحمت ہے اور بلا نماز کے دفن کئے جانے کی صورت میں تو بربناء ضرورت قبر پر نماز پڑھنا ضروری ہے تاکہ ایک مسلم کی میت بلا نماز جنازہ نہ رہ جائے ۔
کیا نکاح میں نامحرم گواہ رہ سکتا ہے ؟
سوال : دور حاضر میں نکاح کے وقت نوجوانوں کی گواہی کو افضلیت دی جارہی ہے اس لئے چچا زاد ، خالہ زاد ، ماموں زاد بھائیوں کو گواہ میں شامل کیا جارہا ہے ۔ کیا نکاح میں نامحرم گواہ رہ سکتا ہے ؟
جواب : گواہ کا عاقل و بالغ ہونا ، آزاد ہونا اور مسلمان ہونا ضروری ہے۔ محرم اور غیر محرم کی کوئی قید نہیں۔ اس لئے چچا زاد ، خالہ زاد ، مامو زاد بھائی جبکہ وہ عاقل و بالغ آزاد مسلمان ہوں گواہ ہوسکتے ہیں۔ فقط واﷲ أعلم