حیدرآباد ۔ 26 ۔ مارچ : ریاستی وقف بورڈ کی شکایت پر جی ایچ ایم سی نے کارروائی کرتے ہوئے توپ خانہ قبرستان گوشہ محل کی باونڈری وال کو لگاکر تعمیر کردہ 30 ڈبوں کو منہدم کردیا ۔ اس سلسلہ میں وقف بورڈ کے ذرائع اور مقامی عوام نے بتایا کہ اس قبرستان کے متولی نے ہی مبینہ غیر قانونی طور پر یہ ڈبے تعمیر کروائے اور انہیں مختلف کرایہ داروں کو 3000 روپئے ماہانہ کرایہ پر دے دیا تھا ۔ ان ڈبوں کو وہاں سے برخاست کئے جانے پر مقامی عوام نے راحت کی سانس لی اور کہا کہ وہاں ڈبے نصب کرتے ہوئے قبرستان کی بے حرمتی کی گئی دوسرے یہ کہ متولی کو ماہانہ ان ڈبوں کے باعث 3000 روپئے فی ڈبہ کے حساب سے جملہ 30 ڈبوں کا 90000 روپئے کرایہ وصول ہورہا تھا ۔ اسپیشل آفیسر وقف بورڈ جناب شیخ محمد اقبال آئی پی ایس کی ہدایت پر پولیس کی بھاری جمعیت کی موجودگی میں جی ایچ ایم سی کے اسکواڈ نے چند گھنٹوں میں وہاں سے ڈبے برخاست کروادئیے ۔ ریاستی وقف بورڈ کے پروٹکشن آفیسر منور علی کا کہنا ہے کہ اے سی پی عابڈز مسٹر پی جئے پال اور انسپکٹر پولیس بیگم بازار مسٹر ایس پربھاکر راؤ کی نگرانی میں بلدی اسکواڈ نے یہ کارروائی انجام دی ۔
قبرستان پروٹیکشن کمیٹی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ لوگ قبرستان کی بے حرمتی کو روکنے ہائی کورٹ سے رجوع ہوئی ہے جب کہ ریاستی وقف بورڈ بلدیہ اور پولیس سے بھی مدد لی گئی ۔ کمیٹی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس طرح کے مزید ڈبے ہیں ۔ جنہیں ہٹانے کی ضرورت ہے ۔ واضح رہے کہ گوشہ محل فیل خانہ بیگم بازار چوڑی بازار میں کئی قبرستان اور موقوفہ جائیدادیں ہیں ۔ لینڈ گرابرس اور مقامی با اثر عناصر کے ساتھ مل کر ان کا وجود مٹانے کی بھر پور کوشش جاری ہیں ۔ عوام کا کہنا ہے کہ ریاستی وقف بورڈ کو سب سے پہلے اس علاقہ میں واقع قبرستانوں اور موقوفہ جائیدادوں کی تفصیلات جمع کرنی چاہئے اور یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کونسی جائیداد کس کے قبضے میں ہے اور وہ کیا کرایہ ادا کررہا ہے ۔ ماضی میں بھی اس علاقہ میں اپنوں اور غیروں دونوں کی طرف سے قبرستانوں کی بے حرمتی کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں ۔
ریاستی وقف بورڈ کے ٹاسک فورس انسپکٹر جناب عبدالقدوس نے اس قبرستان کا تفصیلی معائنہ کرتے ہوئے بورڈ کو رپورٹ پیش کی تھی۔ یہ قبرستان تقریبا 8 ہزار گز پر محیط ہے ۔ ناجائز ڈبوں کی تنصیب اور انہیں آمدنی کا ذریعہ بنانے سے متعلق متولی جناب حمید خورشید سے بات کرنے پر انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ان ڈبوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ قبرستان پروٹکشن کمیٹی نے اگست 2011 میں دارالافتاء جامعہ نظامیہ سے ایک فتویٰ حاصل کیا جس میں قبرستان کی بے حرمتی کے خلاف انتباہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قبرستان کے لیے موقوفہ جائیداد ( زمین ) میں تدفین اموات کے سوا دوسرے اغراض کا استعمال شرعاً جائز نہیں ۔ لہذا اس زمین میں گھر ، گودام یا ڈبے ڈال کر کرایہ وصول کرنا درست نہیں ۔ قبروں کا احترام ایسا ہی کرنا ہے ۔ جس طرح اس کی زندگی میں کیا جاتا ہے جب کہ قبروں پر چلنے کی ممانعت ہے ۔۔