قاہرہ میں پولیس ہیڈ کوارٹرز پر خودکش حملہ، پانچ افراد ہلاک

قاہرہ ، 24 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) تین دھماکوں نے جن میں پولیس ہیڈکوارٹرز میں خودکش بم حملہ شامل ہے، دارالحکومت کو آج دہلا دیا، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور تقریباً 100 دیگر زخمی ہوگئے جو 2011ء کی بغاوت کی سالگرہ سے عین قبل ہلاکت خیز کارروائی ہے۔ سب سے بڑا اور خودکش حملہ پولیس کے ہیڈ کوارٹرز پر کیا گیا۔ بظاہر ان تینوں بم دھماکوں کا نشانہ سرکاری پولیس تھی۔ مصر کے سرکاری میڈیا کے مطابق سب سے پہلا دھماکہ قاہرہ کے وسط میں واقع پولیس کے ہیڈ کوارٹرز پر مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بج کر پندرہ منٹ پر ہوا۔

حکام نے کہا ہے کہ اس کار بم حملے میں چار افراد ہلاک اور تقریباً 70 دیگر زخمی ہوئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق مہلوکین میں خودکش حملہ آور بھی شامل ہے۔ اس دھماکے سے پولیس ہیڈ کوارٹرز کے قریب واقع اسلامی آرٹ میوزیم کی عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ دوسرا بم دھماکہ اس واقعے سے کوئی ایک گھنٹہ بعد ہوا، جس میں ایک خام دیسی ساختہ بم کے ذریعے پولیس کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ البحوت میٹرو اسٹیشن کے قریب پیش آئے

اس دھماکے میں ایک شخص ہلاک جبکہ دیگر آٹھ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تیسرے بم دھماکے میں طلبیہ نامی علاقے میں واقع پولیس ڈائریکٹوریٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ ابتدائی طور پر اس واقعے میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے بارے میں اطلاعات دستیاب نہیں ہوئیں۔ یہ حملے 2011ء کے انقلابِ مصر کی سالگرہ سے ایک روز پہلے ہوئے ہیں۔ تین برس پہلے 25 جنوری کو سابق صدر حْسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا تھا۔ کل بروز ہفتہ فوج کے حامیوں اور مخالفین نے ریلیاں نکالنے کا اعلان کررکھا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس دوران مزید ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔ برطانوی نیوز ایجنسی ’روئٹرز‘ کے مطابق دھماکوں کے بعد فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ حملوں کے بعد مسلح افراد نے عمارتوں پر فائرنگ بھی کی،

تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ ان حملوں کے بعد دارالحکومت کے مرکز سے دھوئیں کے بادل اُٹھتے دیکھے جا سکتے تھے۔ پولیس کی طرف سے فوری طور پر دھماکوں کی تحقیقات کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی بھی گروپ یا تنظیم نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ گزشتہ روز انصار بیت المقدس نامی ایک گروپ نے ایک آڈیو پیغام جاری کیا تھا، جس میں واضح طور پر پولیس کو دھمکی دی گئی تھی۔ ماضی میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت ملک میں ہونے والی مختلف پرتشدد کارروائیوں کا ذمہ دار معزول صدر محمد مرسی کی حمایتی جماعت اخوان المسلمون کو ٹھہرا چکی ہے اور اسی بنیاد پر اس سیاسی و مذہبی جماعت کو ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ محمد ابراہیم نے حملہ آوروں کے تعلق سے کہا، ’’وہ نہیں چاہتے کہ لوگ (25 جنوری کی انقلاب مصر کی سالگرہ) کی خوشیاں منائیں‘‘۔