قانون کو نظر نہیں آیا …

مکہ مسجد بم دھماکہ کیس میں این آئی اے عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد مسلمانان ہند نے کیا ردعمل ظاہر کیا یہ سوال اٹھنے کے درمیان یہ غور کرنا بھی ضروری ہوگا کہ ملک کے حالات غلط سمت میں جانے کی غمازی کررہے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف حکمراں سطح پر لا قانونیت کے رجحانات کو فروغ دیا جارہا ہے تو اس کے ساتھ مسلمانوں کی زندگیوں میں امن و استحکام کی فضا کو مسموم کرنے کی بھی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ۔ عدلیہ ، انصاف و قانون پر اعتماد تو متزلزل کرنے کی ناپاک حرکتیں کرنے والوں نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کے ذریعہ مسلم مخالف عناصر دن بہ دن طاقتور ہوتے گئے اور مسلمانان ہند نے اپنا احتساب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے قائدین کی نا اہلیت کی سزا کیا تاحیات برقرار رہے گی ۔ عدالتی فیصلے نے مکہ مسجد کے خاطیوں کو رہا کردیا اور مسلمانوں کو ملک کے فرقہ پرستانہ ماحول کا اسیر بنالینے کا بھی ثبوت دیدیا ۔ حکومت اور عدلیہ کی راہداریوں سے امید کے چراغ بجھانے کی ہوا چلا دی گئی ہے تو ایسی حکومتوں اور عدلیہ پر مسلمان پھر بھی اعتماد کرتے ہیں تو یہ ان کا ظرف ہے ۔ مسجد کیس میں جب یکطرفہ فیصلہ ہوتا ہے تو عدالت پر یہی الزام لگے گا کہ اس نے انصاف کے اصولوں کو یکسر نظر انداز کردیا ۔ اب مسلمانوں کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھانے والی سیاست طاقت اور قانونی قوت کہاں سے آئے گی اور کیا کرے گی یہ غور نہیں کیا جارہا ہے ۔ اس وقت سیکولر سیاستدانوں یا مسلم قیادت کے دعویداروں کو جھانکنے کے لیے ان کا اپنا گریبان ہی کافی ہے ۔ مگر وہ ادھر اُدھر نقب لگا کر مسلمانوں کو گونگا بنائے رکھنے کی ترکیب سوچتے رہتے ہیں ۔ اس کیس کے بعد جس طرح کا شور مچایا جارہا ہے یہ وہی ترکیب ہے جس کے ذریعہ اپنے منصب کی حفاظت کی جاسکتی ہے ۔ بم دھماکہ کے 11 سال بعد جب قومی تحقیقاتی ایجنسی کی عدالت شواہد کی کمی کے باعث تمام پانچ ملزمین کو بری کرتی ہے تو اس رہائی کا قانونی جواز پیش کرنے کے لیے کونسی تیاری کی جائے گی ۔ صرف وقتی بیانات کے ذریعہ مسلمانوں کی بے چینی اور غم و غصے کو دور کردیا جائے گا ؟ اب یہ مقدمہ 11 سال بعد بھی جہاں تھا وہیں ٹھہر گیا ۔ 2008 کے مالیگاؤں دھماکہ کیس ہو یا دیگر واقعات ہر کیس میں سنگھ پریوار کی دہشت اور نظام انصاف کی ناکامی کے ثبوت واضح ہوتے گئے پھر بھی مسلمانان ہند نے اپنا محاسبہ کرنے کی مخلصانہ فکر رکھنے کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ جب این آئی اے کی عدالت سوامی اسیمانند کے بشمول پانچ اصل ملزمین کو بری کرتی ہے تو انصاف کا گلہ گھونٹ دینے والا فیصلہ کی اس سے بدترین مثال کیا ہوگی اور خصوصی جج رویندر ریڈی نے فیصلہ دینے کے بعد ذاتی وجوہات کا بہانہ بناکر استعفیٰ دیدیا تو اس واقعہ پر مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں خصوصی وکیل سرکار روہنی سالین کا یہ بیان نہ صرف شاہد ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف منظم سازشوں کو واضح کرتا ہے کہ اس استغاثہ روہنی سالین نے کہا تھا کہ مرکز میں جب سے نئی حکومت آئی ہے مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں ہندو انتہا پسند ملزمین کے بارے میں نرم رویہ اختیار کروں ۔ ہندو دہشت گردی یا سنگھ پریوار کی دہشت گردی جیسی تشریحات کے ذریعہ ہندوستان میں معاشرتی زندگی کو انتشار سے دوچار کیا جارہا ہے تو پھر ہم میں سے کسی کا بھی یہ فرض نہیں بنتا کہ سماج کو سنگھ پریوار کے اصل چہرے سے واقف کروانے کی جدوجہد کریں ۔ دستوری ، قانونی اور عدالتی اداروں کو سراسر برسرعام فرقہ پرستی کا رنگ دیا جاچکا ہے تو کیا یہ قانون کی حکمرانی کے لیے سنگین خطرہ نہیں ہے ۔ اس ملک کے سیکولر جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔ خاطیوں کو بچایا جارہا ہے تو کیا مسلمانوں کے لیے یہ حالات خطرناک نہیں ہیں ۔ اس طرح کے چیلنجس کا مزید سامنا کرنے کے لیے اگر مسلمان تیار رہنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں سیاسی ، سماجی اور قانونی سطح پر کمزور کرنے والی طاقتیں اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوتے رہیں گی ۔ مسلمان یہی گیت گاتے رہیں گے شعر کہہ کر سینہ کوبی کرتے ہیں گے کہ انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا اور یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا تو اس طرح ہم خود ظالموں کو کھلی چھوٹ دینے کا سبب بن رہے ہیں ۔ عبرت دلانے کے لیے یہ حالات رونما ہورہے ہیں ۔ سب جان لیں کہ جان کس نے لی مگر قانون کو نظر نہیں آیا ۔