سید محمد افتخار مشرف
انسانی تمدن کی بقا اور ترقی کا دار و مدار عدل کے قیام پر ہے اور قیام عدل کے لئے ایسے قوانین کی ضرورت ہے، جن کو رو بعمل لاکر معاشرے سے ظلم و تعدی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ہر فردکے نہ صرف حقوق و فرائض متعین ہوں، بلکہ ہر ایک بلا مطالبہ اپنے حقوق حاصل کرسکے اور اپنے فرائض کی بجا آوری کا پابند ہو۔ بنی نوع انسان پر اللہ تعالی کا یہ احسان ہے کہ اس نے انسانی غلطیوں کے امکانات کو کم کرنے، انسان کی محدود صلاحیتوں کا دائرہ وسیع کرنے اور انسانی دانش کو جلا بخشنے کے لئے عقلی ہدایت کے ساتھ الہامی ہدایت کا بھی اہتمام فرمایا۔ ایسے برگزیدہ افراد کو ہادی بناکر بھیجا، جو حقیقی حاکم کے احکام انسانوں تک پہنچاتے رہے۔ ان ہی مقدس ہستیوں میں آخری شخصیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، جن کے ذریعہ دین کی تکمیل ہوئی اور نیکی و بدی میں واضح خط امتیاز کھینچ دیا گیا۔ علاوہ ازیں بنی نوع انسان کے لئے ہدایت و شفا کی آخری کتاب نازل کی گئی، جس کی تعبیر و تفسیر اور توضیح و بیان کا کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے کیا۔
دین کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ کتاب الہی نے وہ تمام ضوابط، اصول اور کلیات بتادیئے، جو قیامت تک انسانوں کی رہنمائی کے لئے کافی ہیں۔ قرآن مجید نے جو قوانین عطا کئے ہیں، ان میں انسانی زندگی کے ان دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے، ایسے امور جن میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی، ان کے لئے مفصل اور غیر متبدل قوانین دیئے گئے ہیں اور جن معاملات میں تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے، ان میں اصولی ہدایت اور قواعد کلیہ دینے کے بعد تفصیلی قانون سازی علماء و مجتہدین کے سپرد کی گئی ہے (سورۃ النساء۔۸۳) تاکہ تمدن کے ارتقا کے ساتھ قانون میں ارتقا کا عمل جاری رہے۔ اسلامی قانون کی یہی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اسے کسی دور اور کسی ماحول میں ازکار رفتہ اور سماجی حالات سے الگ نہیں ہونے دیتی، بلکہ ہر دور میں اسے زندہ و تازہ اور موجودہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مستعد رکھتی ہے۔ اسلامی قانون کی یہی خوبی ہے، جس نے اسلام کو دائمی اور عالمگیر حیثیت عطا کی ہے۔
قرآن حکیم میں تقریباً پانچ سو آیات کا تعلق فقہ و قانون سے ہے، جن میں سے نصف سے زائد آیات صرف عبادات، یعنی نماز، روزہ، زکوۃ اور حج سے متعلق ہیں۔ قرآن مجید کا اصل مقصد بنی نوع انسان کو ایک ایسا حیات عطا کرنا ہے، جو بندے کے بندے اور بندے کے خالق کائنات سے تعلقات کو استوار کرے۔
قرآن حکام نے درحقیقت مستقبل میں قانون سازی کے لئے بنیادیں مہیا کی ہیں۔ جب ہم ان اصولوں کا جائزہ لیتے ہیں، جن پر قرآن مجید نے قانون کی بنیاد رکھی ہے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے نہ تو فکر انسانی پر کوئی روک قائم کی گئی ہے اور نہ وضع آئین و قوانین پر اس کے برعکس ان میں جو وسعت، رواداری اور گنجائش موجود ہے، اس سے ہمارے غور و فکر کو تحریک ملی ہے۔ قرآن حکیم نے کہیں بھی دستوری دفعات اور قانونی شقوں کی کوئی فہرست نہیں دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید خلا میں نہیں، بلکہ ایک متحرک معاشرہ میں ایک زندہ نبیﷺ پر نازل ہوا اور اس نبیﷺ کا اولین فریضہ یہ تھا کہ وہ قرآن حکیم کی عملی تفسیر پیش کرے (سورۃ البقرہ۔۱۲۹، سورۃ الاحزاب۔۲۱) اس لئے قرآن مجید نے صرف عام ہدایات پر اکتفا کیا اور تفصیلات و توضیحات کی ذمہ داری حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑدی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اپنے آپ کو کتاب قانون نہیں، بلکہ کتاب ہدایت کہتا ہے (سورۃ البقرہ۔۲، بنی سرائیل۔۹) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی ضمانت دیتا ہے اور مسلمانوں کو آپﷺ کی سنت کے اتباع کا پابند کرتا ہے۔
قرآن مجید نے کرید کرید کر باتیں پوچھنے سے منع کیا ہے۔ ’’اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھا کرو کہ اگر ظاہر کی جائیں تو تمھیں بری لگیں اور اگر پوچھو گے ان کے متعلق جب قرآن اتر رہا ہے تو تمہارے لئے ظاہر کردی جائیں گی‘‘۔ (سورۃ المائدہ۔۱۰۱)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو آپﷺ نے ان میں سے آسان ترین کو اختیار کیا، جب کہ وہ گناہ نہ ہو‘‘۔ (بخاری، کتاب المناقب)
ایک موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالی نے فرائض مقرر کردیئے ہیں، انھیں ضائع نہ کرو۔ حدود کا تعین کردیا ہے، ان سے تجاوز نہ کرو۔ جو چیزیں حرام کردی ہیں، ان کی پردہ داری نہ کرو۔ جن چیزوں کے بارے میں بغیر بھولے محض تم پر رحمت کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی ہے، ان کے متعلق کریدہ نہ کرو‘‘۔ (رازی، تفسیرکبیر۱۱:۱۰۶)
قرآن حکیم نے قانون سازی کی بنیاد اصولوں پر رکھی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن مجید نے کسی جگہ ترتیب وار ان اصولوں کو گنواکر انھیں اساس تشریع قرار دیا ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کے اوامر و نواہی میں غور کرنے اور انسانی مزاج و طبیعت کو مدنظر رکھ کر مختلف احوال و کوائف کے تغیر و تبدل کا مطالبہ کرنے سے تشریع قرآنی میں جاری و ساری نظر آتے ہیں۔ قرآنی اصول تشریع میں انسانوں کے لئے آسانی اور سہولت کے ساتھ انسانی استطاعت اور بشری طاقت سے باہر نہ ہوں، قرآن حکیم کی متعدد آیات سے عدم حرج کے اصول کی تائید ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تمھیں تنگی میں ڈال دے، بلکہ وہ تمھیں پاک صاف کرنا چاہتا ہے‘‘ (سورۃ المائدہ۔۶، سورۃ البقرہ۔۱۸۵) ارشاد ربانی ہے کہ ’’اللہ تعالی تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا‘‘۔
قرآن حکیم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم نے اپنے خطاب کی بنیاد عقل کو بنایا اور احکام الہی ان ہی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو عاقل ہیں۔ قرآن مجید نے تمام اسلامی احکام کو عقلی حوالوں اور منطقی دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)