قانون حق معلومات کے ذریعہ جوابی بیاض کی کاپیوں کا حصول ممکن

حیدرآباد /20فروری (سیاست نیوز)۔آندھراپردیش انفارمیشن کمیشن کی سرزنش کے بعد جواہرلال نہروٹیکنالوجیکل یونیورسٹی حیدرآباداور عثمانیہ یونیورسٹی کے انتظامیہ نے دو امیدواروں کو جوابی بیاض کی کاپیاں فراہم کی ہے تاہم امیدواروں کو امتحانات کے جوابی بیاض حاصل کرنے کے لئے کافی جدوجہد کرنی پڑی اور ایک سماجی تنظیم کا سہارا لینے پڑا۔ضلع نظام آباد کے کاما ریڈی سے تعلق رکھنے والے ایم اے حامد نے عثمانیہ یونیورسٹی میںقانون حق معلومات کے تحت ایک درخواست داخل کی ۔ایم اے حامد نے جون 2013میں منعقدہ بی ۔ایڈ امتحانات میں شرکت کی تھی تاہم ایم حامد کو UNDERSTANDING THE LEARNER AND CLASSROOM MANAGEMENTکے مضمون میں کم نشانات حاصل ہوئے ۔جس کے بعد ایم اے حامد نے 5نومبر2013 کو عثمانیہ یونیورسٹی کے کنٹرولر آف EXAMINATIONسے رجوع ہوکر قانون حق معلومات کے ایکٹ کے تحت UNDERSTANDING THE LEARNER AND CLASSROOM MANAGEMENTکے مضمون کے جوابی بیاض کی کاپی فراہم کرنے کی اپیل کی تاہم21نومبر2013کو عثمانیہ یونیورسٹی نے مکتوب نمبر 1104/002/COEP/EXAMS/2013روانہ کرتے ہوئے ایم اے حامد کو جوابی بیاض فراہم کرنے سے انکار کردیا۔اسطرح کا ایک اور معاملے حیدرآباد کے مضافاتی علاقے کوکٹ پلی میں واقع جواہر لال نہرو ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی میں بھی منظر عام پر آیاہے۔حیدرآباد کے سنتوش نگر سے تعلق رکھنے والے محمد حفیظ الدین نے بھی قانون حق معلومات ایکٹ کے تحت جے این ٹی یو حیدرآباد میںایک درخواست داخل کی۔محمد حفیظ الدین نے بی ۔ٹیک امتحانات کے دومضامین کے جوابی بیاض فراہم کرنے کی جے این ٹی یو سے اپیل کی تھی۔تاہم محمد حفیظ الدین کو بھی ایم اے حامد کی طرح مایوسی کا سامناکرناپڑا۔جس کے بعدایم اے حامد اور محمد حفیظ الدین نے قانون حق معلومات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی سماجی تنظیم آرٹی آئی ایکٹ پروٹیکشین کمیٹی سے رجوع ہوئے۔

آرٹی آئی ایکٹ پروٹیکشین کمیٹی کے نائب صدر محمد عبدالسلیم نے ان دونوں معاملا ت کا جائزہ لینے کے بعد آندھراپردیش انفارمیشن کمیشن سے نمائندگی کی۔ محمد عبدالسلیم کی نمائندگی پرریاستی انفارمیشن کمیشن نے10ڈسمبر2012 کو عثمانیہ یونیورسٹی کے کنٹرولر آف EXAMINATIONکو نوٹس نمبرCASE NO.29162/SIC-LTK/2013 جاری کیا۔اسٹیٹ انفارمیشن کمیشن نے کنٹرولر آف EXAMINATIONعثمانیہ یونیورسٹی کے پبلک انفارمیشن آفیسر کو 18ڈسمبر 2013کو کمیشن کے روبرو حاضرہونے کی ہدایت دی ۔اس طرح کمیشن نے محمد حفیظ الدین کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے 18ڈسمبر کو جواہرلال نہروٹیکنالوجیکل یونیورسٹی حیدرآباد کے پبلک انفارمیشن آفیسر، کنٹرول آف EXAMINATION کو نوٹس جاری کیا۔انفارمیشن کمیشن نے جے اے ٹی یو کے پبلک انفارمیشن آفیسرکو 30ڈسمبر 2013کوکمیشن کے روبرو حاضر ہونے کی ہدایت دی ۔اسی دوران آرٹی آئی ایکٹ پروٹیکشین کمیٹی کے نائب صدر کی قیادت میں ایم اے حامد اورمحمدحفیظ الدین نے نے عثمانیہ یونیورسٹی اور جے این ٹی یو حیدرآباد کا دورہ کیا۔ آرٹی آئی ایکٹ پروٹیکشین کمیٹی دونوں یونیورسٹیوں میں قانون حق معلومات ایکٹ کے نفا ذ کا جائزہ لیااور جوابی بیاض فراہم کرنے کے انکار پر کٹرولر آف EXAMINATION سے وضاحت طلب کی تاہم یونیورسٹی کے انتظامیہ نے ایک بار پھر جوابی بیاض کی کاپیاں فراہم کرنے سے انکار کردیاہے۔ایم حامد کی شکایت پر اسٹیٹ انفارمیشن کمشنر THANTHIYA کماری نے18ڈسمبر 2013کو سماعت کی۔ THANTHIYA کماری نے عثمانیہ یونیورسٹی کے کنٹرولر آف EXAMINATIONکو ایک ماہ کے اندر درخواست گذار کو جوابی بیاض فراہم کرنے کی ہدایت دی ۔

اس طرح اسٹیٹ انفارمیشن کمشنر نے محمدحفیظ الدین کی درخواست پر بھی 30ڈسمبر 2013کو سماعت کی۔اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے THANTHIYAکماری نے کنٹرولر آف EXAMINATIONکو بھی درخواست گذار کو ایک ماہ کے اندر جوابی بیاض فراہم کرنے کے احکامات صادر کردیے ۔ انفارمیشن کمیشن کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے عثمانیہ یونیورسٹی نے 21 ڈسمبر 2013کو ایم اے حامد کو جوابی بیاض روانہ کردیا ۔ اس طرح 20 جنوری 2014 کو جے این ٹی یو حیدرآباد نے بھی محمد حفیظ الدین کو جوابی بیاض فراہم کردیا ہے ۔ ایم حامد اورمحمد حفیظ نے اسٹیٹ انفارمیشن کمشنر THANTHIYA کماری اور آٹی آئی ایک پروٹیکشین کمیٹی کے نائب صدر محمدعبدالسلیم کا شکریہ ادا کیا۔محمد عبدالسلیم نے کہا کہ قانون حق معلومات کا موثراستعمال کرتے ہوئے کسی بھی محکمہ کوجوابدہ بنایاجاسکتاہے۔قانون حق معلومات عام شہریوں کے لئے ایک ہتھیار بن گیاہے۔اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے عام شہریوں کو نہ صرف اپنے مسائل کوحل کرانے میں کامیابی ملی رہی بلکہ ملک میں کئی بدعنوانیاں بھی قانون حق معلومات کا استعمال کرنے کے بعد منظرعام پر آئی ہیں۔قانون حق معلومات کے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے لئے آرٹی آئی پروٹیکشین کمیٹی سے ای میل آئی ڈی rti.act.helpline@gmail.comیا پھر saleem230@gmail.comپر ربط کیاجاسکتاہے۔