کتنا مشکل ہے زندگی کا سبق
سر پہ جیسے تنی ہو سیفِ ادق
قانون اور شہریوں کے حقوق
قوموں کے مزاج صدیوں میں ڈھلتے ہیں اور آسانی سے بدل نہیں سکتے ۔ آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا۔ پیہم تعلیم اور تربیت ، غلطیوں کے ادراک، راہ راست کی تمنا اور عزم سہی کے ساتھ معاشروں کو صحت مند، ماحول کو صاف ستھرا ،آلودگی سے پاک آب و ہوا بنائے جاسکتے ہیں لیکن جب انسانوں پر مذہبی جذبات کا غلبہ ہوجاتا ہے تو مذکورہ بالا تمام تقاضے فراموش ہوجاتے ہیں۔ حیدرآباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کلیان جیوتی سین گپتا نے شہر میں مرکزی گنیش جلوس کے دوران پولیس کی رکاوٹوں پر سوال اٹھایا ۔ ناحق کے شہریوں کا راستہ روکنا انہیں تکلیف دینا کسی قانون اور معاشرہ کی تہذیب نہیں ہے مگر ہر سال گنیش وسرجن کے موقع پر شہر کی پولیس سارے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے ایک کھلی جیل بنادیتی ہے ۔ چیف جسٹس کلیان جیوتی سین گپتا کی برہمی بجا ہے کہ پولیس کے ناقص انتظامات شہریوں خاص کر انسانوں کے حقوق پر ضرب ہے۔ انہوں نے گنیش جلوس کے دوران ناقص انتظامات کے خلاف سخت قدم اٹھاکر محکمہ داخلہ کے پرنسپل سکریٹری اور سٹی پولیس کمشنر کی سرزنش کی کہ آخر ایک جلوس کی خاطر سارے شہر کو مفلوج کرنے کی وجہ کیاہے ۔ افراد کی طرح اقوام بھی نا بالغ ہوتی ہیں اور ان کے حکمراں و نظم و نسق کے ذمہ داری بھی جب نا بالغ ہوں تو اس طرح کے بچکانہ مسائل پیدا کردیئے جاتے ہیں کوئی قوم جب مذہبی جذبات میں بہہ کر فضول خرچ ہوجاتی ہے تو قوانین کا احترام نہیں اور نہ کوئی انسانی تکالیف کا خیال نہیں رکھتی۔ آلودگی پر دھیان نہیں دیتی اور ان کی حرکتوں کا ساتھ دے کر نظم و نسق بھی نابالغ حرکتیں کرتے ہوئے ملبہ کی صفائی کیلئے عوام کے ٹیکس سے جمع کردہ محنت کی کمائی کو بے دریغ خرچ کرتا ہے تو غربت، تباہی افلاس اور ذہنی دیوالیہ پن برقرار رہنا یقینی ہوجاتا ہے۔ حسین ساگر کی آلودگی کو دور کرنے کیلئے ہر سال ماہر ین ماحولیات کے منصوبے تیار ہوتے ہیں مگر یہ آلودگی برقرار رہتی ہے کیوں کہ سرکاری مشنری کے ذمہ دار اصحاب کی ذہنی آلودگی نے معاشرہ کے چند افراد کو بھی آلودہ ذہن بنا دیا ہے تو ماباقی انسانوں کو مسائل سے دوچار کردیتے ہیں۔ ایک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنے گھر بنجارہ ہلز سے نکل کر ہائی کورٹ پہوننچے کے لئے جن تکالیف اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا یہی حال عام شہریوں کا بھی تھا۔ مگر پولیس و نظم و نسق کے ناقص انتظامات کا نوٹ لیتے ہوئے جج صاحب نے انتباہ تو دیا ہے کہ اس طرح کی خرابیوں کو درست کرلیا جائے ۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا واجبی ہے کہ آخر سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے جبکہ راہ چلنے و الے شہریوں کو کسی منزل پر پہونچنا ضروری ہوجاتا ہے ۔ کسی مریض کو لے جانے و الے ایمبولنس کو دواخانہ پہونچانا لازمی ہوجاتا ہے ایسے میں سڑکوں کی رکاٹوں کا کیا جواز ہوسکتا ہے۔ ہنگامی صورتوں میں سڑکوں یا راستوں کوکھلا رکھنا ضروری ہے۔ ہر سال شہر میں مذہبی جلوس کو سیاسی رنگ دینے سے بھی عوامی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کے دیگر شہروں خاص کر مہاراشٹرا میں بھی مذہبی تہواروں کا اہتمام ہوتا ہے مگر کسی شہری کی آزادی کو سلب کرکے تہوار یا جشن نہیں منایا جاتا ۔ حیدرآباد کی پولیس اور نظم و نسق کی خرابی یہ ہے کہ وہ بھی مذہبی جذبات کا ساتھ دے کر عام شہریوں کو مشکلات میں ڈالدیتی ہے ۔ ہر قوم میں عمروں تک زندگی عبادت گاہوں میں فریاد کرتی ہے لیکن یہ لوگ عبادت گاہوں کا کم رخ کرتے ہیں سالانہ سڑکوں کو اپنی اندھی عقیدت سے بھر دیتے ہیں ۔ ہندوستان میں تمام مذاہب کے ماننے والوں میں غیر معمولی اخلاق علم و کردار کے حامل افراد ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی مذہب نے انسانوں کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں دی ہے پھر بھی بعض گروپ اپنی سیاسی و مذہبی سونچ کو فرقہ وارنہ رنگ آمیزی کے ساتھ شہر کی سڑکوں پر محو رقص ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کا یہ سوال توجہ طلب ہے کہ شہریوں کو آسان راہ فراہم کرنا پولیس اور نظم و نسق کی دمہ داری ہے ۔ اس طرح کے مذہبی جلوسوں کے موقع پر دیگر سڑکوں کو کھلا رکھنا اور ٹریفک کے بہاو کو آسان بنانا متعلقہ عہدیداروں کی ذمہ داری ہے لہذا پولیس اور نظم و نسق کو قدیم زمانہ میں نہیں اپنے عہد میں زندہ رہنا چاہئے ۔ مذہبی جذبات کے تقاضے مختلف ہو تے ہیں مگر حکومت و قانون کو اپنے فرائض سے لاپرواہی نہیں برتنی چاہئے ۔ اس نے خرابیوں کا کھل کر سات دیا تو اور بھی خرابیاں جنم لیں گی ۔ چیف جسٹس کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے قانون و نظم و نسق نے آئندہ سال اس شکایات کا موقع نہ دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ کیا ان کا احتساب عوام کرسکتے ہیں کون سے عوام۔ وہ عوام جو اپنے چند مذہبی قائدین کے سیاسی رنگ کے نعروں پر پلتے ہیں ۔ چند سیاستدانوں اور مذہبی ٹھکیدراوں کے نعروں پر چلنے والے عوام نہ اپنا اور نہ معاشرہ کی خرابیوں کا احتساب کریں گے ۔ یہ لوگ معاشرہ کے سفید ہاتھی بن چکے ہیں ان پر قانون کی سرزنش بھی اثر نہیں کرتی ۔