مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ
(قسط دوم)
اے عقل و دانش رکھنے والو تمہارے لئے قصاص میں حیات و زندگی کا سامان ہے تاکہ تم خونِ ناحق سے بچ سکو(البقرہ ۱۷۹) اس آیت پاک میں عقل و خرد رکھنے والوں کو مخاطب بنایا گیا ہے، ممکن ہے اس کی حکمت سب پر ظاہر نہو، کیونکہ افراط و تفریط میں مبتلاء افرادِ انسانیت عقل رکھ کر بھی عقل سے محروم رہتے ہیں، قصاص میں انسانی سماج کی زندگی کا ہونا ایک ایسی کھلی حقیقت ہے جو حقیقی معنی میں عقل رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں، ہوسکتا ہے قصاص کا قانون بے دینوں کو نہ بھائے، تبھی تو اسلام کے اس قانونث پر مغربی دنیا کے ملحد اور ان کے متبعین طرح طرح سے اعتراض کرتے ہیں۔ ان کی عقل پر چونکہ تعصب کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔
اسی لئے قاتل کے قتل کی سزا پر انسانیت کی دُہائی دیتے ہیں اور اسلام کے قانون کو ایک ظالمانہ و وحشیانہ قانون قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتے، اس بہانے اسلام کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف رہتے ہیں۔ اور اپنی اس فکر کو روشن خیالی تصور کرتے ہیں، ان سے متاثرہ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو مغرب زدگی کا شکار ہیں انہیں بھی اسلام کی خوبیاں ایک آنکھ نہیں بھاتیں وہ بھی ان کی تقلید میں اسلامی سزائو کو بے رحمی کا نام دیتے ہیں اور ان سزائوں کو ظلم و بہیمیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن انسانیت کے ان فرضی ہمدردوں کو انسانیت کے حوالے سے مقتولین سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ورنہ وہ اسلام کی اس سزا کے خلاف واویلا مچا کر قاتل کے طرفدار نہ بنتے۔ انسانیت کے ان فرضی ہمدردوں کی وجہہ بھی اس وقت قتل و خون کا بازار پہلے سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ مجرم اس کی وجہہ بے خوف و خطر قتل و غارت گری میں مصروف ہیں۔ ظاہر ہے حکمِ قصاص پر عمل کرنے میں صد ہا حکمتیں ہیں۔
قاتل کو قتل کی سزا دی جائے تو دوسروں کو اس سے عبرت ہوگی اور وہ قتل کے جرم سے باز رہیں گے۔ قصاص کے حکم پر عمل سے کئی انسانی قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ جائیں گی اس طرح معاشرہ میں رہنے والے بے خوف و خطر زندگی بسر کر سکیں گے۔ ’’قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے‘‘ کی حقیقت اس پر عمل سے ہی سب پر کھل سکے گی، عقل و خرد رکھنے والے بینا تو بینا نابینائوں کو بھی اس کا ادراک بآسانی ہو سکے گا۔قصاص میں جہاں اسلام نے افراط کو پسند نہیں کیا جیسا کہ دور جاہلیت کا چلن تھا وہیں وہ تفریط کا بھی مخالف ہے ۔جیسا کہ آج کے انسانیت کے فرضی ہمدردوں کا رجحان ہے۔
قانونِ قصاص ایک حکیمانہ قانون ہے جو کسی اور کا نہیں بلکہ خالق فطرت کا بنایا ہوا ہے، انسانی سماج کا سکون اور اس کی کامیابی خالق فطرت نے ’’عدل و انصاف‘‘ پر رکھی ہے، جہاں عدل ہوگا وہاں امن و سکون ہوگا، کسی گوشہ میں کوئی ظلم باقی نہیں رہے گا، جہاں قاتلوں پر قانونِ قصاص کا نفاذ نہیں ہوگا وہاں جرائم کی گرم بازاری ہوگی، نرمی و رعایت وہ بھی مجرموں کے ساتھ ظاہر ہے اس سے مجرموں کو تو حوصلہ ملے گا اور بڑی جرات و بے باکی کے ساتھ جرائم کا ارتکاب کرتے رہیں گے۔اس سے تو مجرموں کو تقویت ملے گی وہ اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے سماج کے چین و سکون کو غارت کرتے رہیں گے۔ لیکن سونچئے سماج کا کیا ہوگا اور اس میں رہنے بسنے والے انسان ظالموں اور مجرموں کے ضرر سے کیسے محفوظ رہ پائیں گے ۔
انسان کی فطرت میں طبعی طور پر خوف کا عنصر رکھا گیا ہے وہ کسی بھی عمل کے جوابی ردّعمل میں ہونے والے سخت برتائو کا تحمل نہیں کرسکتا، جرائم پر اسلام کی سخت سزائوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اس کے خوف ہی سے کانپ اٹھتا ہے نتیجہ میں اس کے قدم خود بخود جرم و گناہ کی طرف بڑھنے سے رک جاتے ہیں اس طرح کسی سخت سزاء کے نفاذ سے قبل ہی وہ جرم سے بچ کر اپنے آپ کو اُس سزاء سے بچالیتا ہے، اسلام کی سخت سزائوں کے خوف کا تصور ہی کئی ایک جرائم کے سدباب کا ذریعہ بن جاتا ہے، اس حکیمانہ پہلو پر نظر کی جائے تو پھر جرائم پر اسلام کی سخت سزائیں خود باعث رحمت ثابت ہوتی ہیں۔ تعصب سے اونچے اٹھ کر غور کیا جائے تو پھر اس پر اعتراض کرنے والوں کو اعتراض کا موقع ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے، معترضین کو اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ’’انسانیت پر رحم‘‘ کے عنوان سے کیا مٹھی بھر مجرمین کی حمایت کر کے سماج میں رہنے بسنے والے ہزاروں لاکھوں معصوم و بے گناہ شہریوں پر ظلم ڈھایا جائے اور ان کا چین و سکون چھین لیا جائے ؟
پورے سماج کی حیثیت گویا اک اکائی کی ہے، اس کو جسد واحد سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے، اور سماج میں رہنے بسنے والے افراد ایک طرح سے اس جسد واحد کے اعضاء ہیں، جس طرح انسانی جسم میں کوئی عضو سڑ جائے تو سرجری کے ذریعہ اُسے نکال پھیکنے ہی میں عافیت سمجھی جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح سماجی جسد کا کوئی عضو مجرمانہ کردار کی وجہ باعث آزار بن گیا ہو تو ظاہر ہے اس کے جرم کی مناسبت سے اُس پر سزاء جاری کر کے ہی سماج کے جسد کو راحت پہنچائی جاسکتی ہے، جرائم پر اسلام کی سخت سزائوں کی حیثیت بھی گویا اسی سرجری کی طرح ہے۔
قصاص کے حکم میں زندگی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہوں گے کہ قاتل کو جب یہ خوف دامن گیر ہو گا کہ اس کی پاداش میں اس کا بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔ تو اس سے کسی قتل کا ارادہ کرنے والے کو قتل کا اقدام کرنے کی ہمت نہیں ہوگی جس سماج میں اس طرح کا قانون نافذ ہوگا وہاں قتل اور دیگر جرائم کی وارداتیں خود بخود کم ہو جائینگی۔ خونریزی و قتل کی واردات کا تناسب گھٹ جائے گا۔ جن ملکوں میں اسلامی احکام نافذ ہیں وہاں جرائم کے اعداد و شمار دیگر ملکوں کے مقابلہ میں بالکل کم ہیں۔
قصاص لینے کا حق شریعت اسلامیہ نے اگرچیکہ مقتول کے اولیاء کو دیا ہے لیکن اس قصاص کی سزا کے نفاذ کا ان کو حق نہیں دیا گیا کہ وہ ازخود اس سزا کو جاری کرکے بدلہ لے لیں۔ بلکہ اسلام نے اس حق کو حاکم اسلام کے حکم کے ساتھ مخصوص رکھا ہے۔قصاص کا نفاذ کن صورتوں میں کیا جاسکتا ہے اور کن صورتوں میں نہیں ان حقائق کا ادراک ہر ایک کیلئے ممکن نہیں اس سزا کے نفاذ کے جو احکام ہیں وہ بہت نازک ہیں اس لئے اسلامی ملک ہو تو حاکم اسلام کو، غیر اسلامی و جمہوری طرز کی حکومتیں ہوں تو پھر عدالت کو یہ حق دیا جائے گا۔ (سلسلہ صفحہ 6 پر)
اس طرح قاتل کو معاف کرنے کا اختیار بھی انہیں (اولیائے مقتولین) کو حاصل ہے۔اگر وہ معاف کردیں تو پھر عدالت کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ قصاص میں جان لینے کے فیصلہ پر اصرار کرے۔
ہمارے ملک ہندوستان کو جنت نشان کہا جاتا تھا جہاں عدل و انصاف کی فروانی تھی مظلوموں کی داد رسی کی جاتی تھی، مجرموں اور ظالموں کیلئے سخت قوانین نافذ تھے، لیکن ادھر چند دنوں سے انسانیت کے حوالے سے فرضی ہمدرد پیدا ہو گئے ہیں جو ’’قاتلین‘‘ پر رحم کے قائل ہیں ’’مقتولین‘‘ کے ساتھ رحمدلی کا کوئی جذبہ ان کے دل کے کسی گوشہ میں آخر کیوں نہیں ہے۔ رحم دلی یقینا قابل تعریف و صف ہے لیکن یہ اس وقت قابل تعریف ہے جب کہ مظلوموں اور محتاجوں اور بے گناہ غریب و شریف انسانوں کے ساتھ ہو، نہ کہ مجرموں اور ظالموں کے ساتھ، قاتلوں اور ظالموں پر رحم کرنا گویا سانپ کو دودھ پلانے اور زہریلے بچھوئوں کو غذا فراہم کر کے پال پوس کر تروتازہ کرنے کے برابر ہے، ان بے رحم انسانوں کو تو قرار واقعی سزا ملنی چاہیئے کہ یہی ان کے حق میں بھی حقیقی معنی میں رحم ہے اور مظلوموں اور مقتولوں کے حق میں بھی، اسلام کا قانون اسی جذبۂ رحم کی تحسین کرتا ہے۔
ابھی حال میں ملک کے سابق وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی کے قاتلین کو قتل کی سزا دی جانے کے بجائے وہ بھی سپریم کورٹ سے عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے جو خود بھی ’’دن کے اجالے میں انصاف کا خون‘‘ کے مترادف ہے لیکن انسانیت کے بعض فرضی ہمدردوں کو یہ سزا بھی نہیں بھا رہی ہے بلکہ وہ اس کے خلاف کھلے عام بیان بازی میں مصروف ہیں۔ اور خواہش کر رہے ہیں کہ ان کو رہا کر دیا جائے یا للعجب۔ ملک کے وزیر اعظم کے قاتلین کو اگر عدالتیں قتل کی سزا نہ دیں تو پھر رعایہ کے جان و مال کا تحفظ کیسے ہوسکے گا۔ اور پھر سماج کو اس انسانیت سوز جرم سے کیسے محفوظ رکھا جاسکے گا، آئے دن اخبارات میں قتل و خون کی وارداتیں شائع ہوتی رہتی ہیں کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ یکّا دُکّا قتل کا واقعہ اخبار کی سرخیوں میں نہ آتا ہو، ابھی چند دن قبل نظام آباد کے حوالے سے اخبارات میں قتل کی ایک دردناک خبر شائع ہوئی کہ کسی رشتہ کے بھائی نے اپنے ہی ایک محسن بھائی کی تین معصوم و کم سن لڑکیوں کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا۔ جب کہ اس گھر میں کوئی خوشی کی تقریب جاری تھی اس بے رحم ظالم نے جہاں اس گھنائونے جرم کے ارتکاب سے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کر کے خوشی کی تقریب کو ماتم کدہ میں تبدیل کر دیا وہیں سونچنے کی بات ہے کہ معصوم نو خیز کلیوں کو بے دردی سے مسل کر ان کی حیات و زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ کیا یہ جرم اس قابل ہے کہ انسانیت کی دہائی دے کر اس کو معاف کر دیا جائے ۔ سماج میں جرائم کے پنپنے کی دو بنیادی وجوہات معلوم ہوتی ہیں ایک تو مفسدین و مجرمین کے ساتھ جذبۂ رحم کہ کسی طرح انسانیت کی دہائی دیکر ان کی پشت پناہی کی جائے ایسے مجرمین کے بسا اوقات قانون ساز اداروں کے ذمّے دار کوئی ام۔ ال۔ اے یا کوئی ام ۔ پی پشت پناہ بن جاتے ہیں کہیں مفادات کی کار فرمائی رہتی ہے کہیں حکومت و پولیس میں اپنے عہدہ و منصب کا اثر رکھنے والوں کا دبائو رہتا ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ مجرمین آزادانہ طور پر قانون و عدالت کے کسی ڈر و خوف کے بغیر سماج میں دندناتے پھرتے ہیں۔ اور جرائم کو مزید جرأت کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں، اس طرح عدل و انصاف مذاق کا نشانہ بن جاتا ہے، دوسری یہ کہ کمزور و مظلوم شریف النفس انسانوں پر ناکردہ گناہ و جرم کا الزام تھوپ کر من مانی سزا دینا اور بلا وجہہ قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کرنا، ظاہر ہے مظلوم، بے قصور، و بے گناہ افراد کا ظلم کی بھٹی سے گذارا جانا اور ناکردہ جرم کی سخت سزاء بھگتنا کوئی ایسی معمولی بات نہیں ہے جس کو نظر انداز کر دیا جائے، حکومت اور حکومت کے کارندوں جیسے پولیس کا ظالمانہ برتائو اور عدالتوں کے ظالمانہ فیصلے سے جو نفرت کا تخم ان کے دلوں میں پرورش پانے لگتا ہے وہ ان کے قید خانے سے رہا ہوتے ہوتے شجر زہر ناک کی صورت اختیار کر لیتا ہے، تو پھر اس کے ثمر سے اچھے نتائج کی امید کہاں کی جاسکتی ہے ۔
یہ ملک اب جس ڈگر پر چل پڑا ہے اس سے جمہوریت ہی نہیں بلکہ انسانیت کو بڑا خطرہ لاحق ہے۔ یہی صورت حال رہی تو شدید امکان اس بات کا ہے کہ ہمارا ملک مجرموں کی پناہ گاہ بن جائے ۔ مظلوموں اور مقتولوں کا کوئی پرسان حال نہ رہے۔ ملک سے قتل و غارت گری کی لعنت کو ختم کرنا ہے تو پھر سے قرآن پاک کے اس حکم ’’تمہارے لئے قصاص میں حیات و زندگی ہے‘‘ کو سرمۂ بصیرت بناکر اس کو روبہ عمل لانے کی شدید ضرورت ہے اس میں معاشرہ میں رہنے والوں کیلئے سکون و اطمینان ہے اور سماج کی حیات و زندگی کا راز بھی اسی میں مضمر ہے ۔