قانونِ اسلامی تاابد، ناقابل تغیر معجزۂ قانونی

ان دنوں مغربی ممالک میں بطور خاص ’’شریعہ لاء ‘‘ پر گرما گرم مباحث جاری ہیں ، اور ایک اسلام دشمن گروہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں سے متعلق بدگمانی و نفرت پیدا کرنے کی غرض سے دانستہ طورپر یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ مسلمانوں کو کسی بھی ملک اور کسی بھی مقام میں ہوں ’’شریعہ لاء‘‘ کو نافذ کرنا اور ملکی سطح پر اس کو جاری کرنے کیلئے جدوجہد کرنا فرض و واجب ہے ۔ اسلام دشمن ذہن یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ مغربی ممالک میں جو مسلمان سکونت پذیر ہیںوہی ان ممالک کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور وہ دلیل یہ دے رہے ہیں کہ یہ مسلمان مغربی ممالک میں اسلامی قوانین کی تنفیذ و اجرائی کے لئے جہاد کریں گے اور مغربی ممالک کی سادہ لوح عوام دشمن کے جال میں پھنستی چلی جارہی ہے اور روز بہ روز اہل اسلام سے متعلق نفرت و عداوات کے لاوے پھوٹ رہے ہیں ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اسلامی قانون ایک ہی وقت میں نازل یا مرتب نہیں ہوا بلکہ وہ (۲۳) سال کے طویل عرصے میں حسب موقعہ بتدریج فروغ پاتا رہا ۔ یہاں تک کہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر قانونِ اسلامی کی تکمیل کی بشارت دی گئی ۔ ارشاد الٰہی ہے ۔ترجمہ : آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردی اور تمہارے لئے بطور دین اسلام سے راضی ہوگیا ۔

قانونِ اسلامی کی ترتیب و تدوین میں مکی دور کو بھی نمایاں اہمیت حاصل ہے ۔ مکی دور میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے مسلمانوں کے لئے تدریج کے اصول کو اپنایا ، بعض نامناسب پختہ عادتوں کے بارے میں ڈھیل اور لچک کا انداز اختیار کیا ۔ نئے قوانین بھی نافذ ہوتے رہے اور کچھ جائز و مباح چیزیں حرام یا مکروہ قرار دیجاتی رہیں۔ اس لئے مکہ میں جو احکام نازل ہوئے وہ بھی مکمل ضابطۂ قوانین میں شامل ہیں البتہ جو منسوخ ہوگئے وہ شامل نہیں ہوں گے ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد حمیداﷲ کا گرانقدر مقالہ ’’رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم بطور مقنن ‘‘ کا ایک اقتباس نہایت معنی خیز ہے …: ’’کتب سیرت کی مدد سے احادیث میں بھی ایک حدتک مکی اور مدنی کی ترتیب قائم کی جاسکتی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ قانون (تشریع) کا سلسلہ نزولِ قرآن کے آغاز ہی سے شروع ہوچکا تھا ۔ مکی زندگی میں نئے معاشرہ کی تشکیل شروع ہوگئی ۔ اعلان ایک نبی کی طرف سے ہوتا رہا ۔ اس معاشرہ کی جب مدینہ منورہ میں تشکیل ہوکر ایک منظم ریاست کی صورت میں تکمیل ہوئی تو نبیؐ نے بطور قائد اپنا مثالی کردار اور ( مکی و مدنی سورتوں کو ملاکر) قوانین کا اعلان و نفاذ کیا۔ اس قانون سازی کا طریقہ سادہ تھا : رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم فرماتے : ’’یہ کرو ، یہ نہ کرو ، اہل ایمان اس پر آمنّا صدقنا کہتے ، یہ تشریع کبھی آیات پر مبنی ہوتی ، کبھی حدیث و سنت کا جز ہوتی ، جن کے متعلق بھی قرآن نے مکی دور ہی میں کہہ دیا تھا کہ ’’آپ اپنی مرضی سے نہیں بولتے ، بلکہ یہ تو وحی ربانی ہے جو آپ کی زبان سے صادر ہوتی ہے ‘‘ ( سورۃ النجم : ۳۰)،  (ماخوذ از سیرت خیرالانام : ۴۳۱)
مکہ مکرمہ میں مسلمان ہجرت تک اقلیت میں رہے اور اکثریتی طبقہ جوکہ مکہ مکرمہ کے نظام پر اثرانداز تھا اس نے اہل اسلام پر ظلم و ستم کی انتہاء کی جب تک مسلمان مکہ میں رہے وہ ایک ظالم و جابر نظام کے تحت مظلوم و مجبور زندگی گزارے ۔ اسی دوران نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو ملک حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دی ۔ وہاں بھی کوئی اسلامی نظام نہ تھا وہاں غیراسلامی نظام نافذ تھا البتہ وہاں کا حکمراں عدل و انصاف کا حامی تھا وہ اپنی رعایا پر ظلم و ستم کو روا نہ رکھتا تھا ۔ اور مسلمان ملک حبشہ میں بھی اقلیت ہی میں تھے لیکن انھوں نے ملک حبشہ کے مقامی قاعدے قوانین کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی شریعت پر صدفیصد عمل کیا۔ نہ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو بحیثیت اثر و نفوذ غلبہ حاصل تھا اور نہ ملک حبشہ کی حکومتی نظام میں مسلمانوں کو کوئی قوت حاصل تھی ۔ یہ دونوں نظام ، اسلامی نظام نہ تھے ۔ مسلمان مکہ مکرمہ کو اس لئے نہیں چھوڑے کہ وہاں اسلامی نظام نہ تھا بلکہ اس لئے ہجرت کئے کہ وہ مظلوم تھے ، ان کو ان کے مذہب کی وجہ سے ان پر زیادتی کی گئی تھی اوریہ صورتحال ملک حبشہ میں نہ تھی اس لئے مسلمان امن و امان کے استقرار تک وہاں سکونت پذیر رہے بعد ازاں مدینہ منورہ منتقل ہوگئے ۔

اب جب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپؐ کی تشریف آوری کے چند ہفتے بعد ہی مدینہ منورہ میں ایک سیاسی ہئیت وجود میں آگئی اور اس شہر کے بڑے حصے میں ایک شہری ریاست قائم ہوگئی ، یہ پہلی حکومت تھی جس کے نظام میں مسلمان شریک رہے تاہم اس نظام حکومت میں اہل اسلام میں سے مکہ کے مہاجرین اور مدینہ کے انصار کے علاوہ غیرمسلم عرب اور یہودی باشندے بھی برابر کے شریک رہے ۔گویاکہ مخلوط حکومت تھی جس کے اقتدار اعلیٰ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی ذات گرامی تھی اور ایک ’’معاہدۂ عمرانی‘‘تشکیل پاتا ہے اور اس ریاست کا ایک تاریخ ساز دستور وجود میں آتا ہے جس میں ہر مذہب و ملت کے ماننے والے کو مکمل آزادی حاصل تھی جس کو دنیا ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے جانتی ہے اور ڈاکٹر محمد حمیداﷲ کی تحقیق کے مطابق وہ دنیا کا پہلا دستور ہے جو مختلف مذاہب و ادیان کے درمیان باضابطہ تحریری طورپر مدون ہوا ۔ بعد ازاں یہ چھوٹی سی شہرتی ریاست ترقی کرتے ہوئے ایک عظیم الشان ملک میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اس دستور و معاہدہ کے ماننے والوں کی اکثریت مشرف باسلام ہوجاتی ہے اس طرح یہ مشترکہ حکومت ، اسلامی حکومت میں تبدیل ہوجاتی ہے جس کی بناء غیرمسلم رعایا کے مخصوص احکام و قوانین مرتب ہوتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے (۲۳) سالہ قانون سازی و تشریعی زندگی کو بنیادی طورپر چار نظامہائے حکومت پر منقسم کرکے شرعی قوانین کے نفاذ و اجراء کی حقیقت و حیثیت کو جانا جاسکتا ہے کہ (۱) مکہ کا ظالم نظام (۲) حبشہ کا غیراسلامی مگر عادل نظام (۳) مدینہ کی ابتدائی شہری مخلوط حکومت (۴) اسلامی حکومت ۔
ہر مسلمان شرعی قانون کا پابند ہے ۔ وہ کسی بھی ملک میں کیوں نہ ہو اس پر شرعی احکامات کی پابندی لازمی ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ہر ملک میں اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کیلئے جدوجہد کرے گا ۔ نظامِ حکومت کے بدلنے سے شرعی احکام بھی بدل جاتے ہیں۔ اگر اسلامی حکومت ہوگی تو وہاں شرعی حدود نافذ ہوں گے ۔ شراب پینے والے کو سزا دی جائیگی ۔ زنا کرنے والا اسلامی سزا کا مستحق ہوگا لیکن اگر وہ کسی غیراسلامی ملک میں مقیم ہو تو وہ ان جرائم و منکرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے گا، خواہ وہ منکرات غیراسلامی ملک میں قانوناً روا کیوں نہ ہو۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان کسی بھی ملک میں ہو ، اسلامی ملک ہو یا غیراسلامی اوامر کو بجالانا مثلاً نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج وغیرہ کی تعمیل کرنا اور منھیات و ممنوعات جیسے زنا ، شراب ، چوری ، ڈاکہ وغیرہ سے بچنا لازم ہوگا ۔ اس بناء پرکسی مسلمان کو کسی بھی ملک میں اسلامی احکام پر عمل کرنا دشوار نہیں ہے اور یہ قانونِ اسلامی تاقیامت ہر مسلمان کے لئے رہیگا ۔ انسانی معاشرہ تغیر پذیر ہے دنیا کا ہر قانون تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتا ہے لیکن قانونِ اسلامی ایک ایسا معجزاتی قانون ہے جو تاقیامت بغیر کسی تبدیلی کے یکساں قابل عمل و نافذالعمل رہیگا ۔