ایک روز یمن کے قاضی صاحب ننگے پاؤں اور بے قاعدہ لباس میں تیزی سے قدم اُٹھاتے چلے جارہے تھے ۔ ایک دوست بھی ان کے پیچھے پیچھے ہولیا ۔ اس نے دیکھا کہ قاضی محمد بن علی خزانچی ملک ظفر کے گھر کے سامنے جاکر رک گئے اور انہوں نے دروازے پر جاکر دستک دی ۔ خزانچی کے ملازم نے جاکر قاضی صاحب کی آمد کی اطلاع اپنے آقار کو دی ۔
خزانچی بھاگا آیا اور قاضی کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر کہنے لگا کہ جناب مجھے حکم دیا ہوتا میں خود حاضر ہوجاتا ۔ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ ایک شخص کے بچے میرے پاس آئے ہیں ۔ انہوں نے شکایت کی ہے کہ آپ نے ان کے باپ کو قید کر رکھا ہے بچے باپ کے بغیر بری حالت میں ہیں ۔ خزانچی نے جواب دیا کہ جناب وہ شخص تو سلطان منصورکے حکم سے قید ہے ۔ سلطان کی اجازت کے بغیر میں اسے نہیں چھوڑ سکتا ۔ قاضی صاحب نے فوراً سلطان منصور کے پاس قاصد دوڑایا ۔ سلطان منصور نے اس شخص کی رہائی کا حکم جاری کردیا لیکن جب تک قیدی رہا ہو کر سامنے نہ آگیا قاضی صاحب وہیں کھڑے رہے اور اسے اپنے ساتھ لے کر اس کے گھر تک چھوڑ کر واپس آگئے ۔ سلطان منصور جب مدینہ پہنچے تو اس زمانے میں محمد بن عمران قاضی کے منصب پر فائز تھے ۔ قاضی صاحب کی عدالت میں ایک اونٹ والے نے آکر سلطان کے خلاف شکایت درج کروائی اور انصاف کا طلبگار ہوا ۔ قاضی صاحب نے سلطان کے نام عدالت میں حاضری کا حکم جاری کردیا ۔ سلطان اپنے ہمراہیوں کو باہر چھوڑ کر خود عدالت میں پیش ہوئے ۔ قاضی صاحب تعظیم بجالانے کیلئے اپنی جگہ سے نہیں اُٹھے اور بدستور اپنے فرائض ادا کرتے رہے ۔ مقدمے کی سماعت کے بعد قاضی صاحب نے سلطان کے خلاف فیصلہ دے دیا ۔ جب فیصلہ سنایا گیا تو سلطان خوشی سے اُچھل پڑے اور قاضی صاحب سے کہا کہ میں آپ کے انصاف سے بہت خوش ہوا ۔ پھر سلطان نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ قاضی صاحب کو دس ہزار درہم انعام دیا جائے یہ تھے اس زمانے کے حکمران اور قاضی جو ایک دوسرے کا بے حد احترام کیا کرتے تھے ۔ مگر آج کل کے حکمران اور قاضی صاحبان نجانے کن کے اشاروں پر ایسے فیصلے کرتے ہیں ۔