قاری محمد مبشر احمد رضوی القادری

نگاہ ِمرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
قرآن عظیم میں ارشاد باری تعالی ہے: ’’سن لو! اللہ کے ولیوں کو نہ کچھ خوف ہے اور غم۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں، انھیں خوش خبری ہے دنیا و آخرت میں، اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ سورہ یونس)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ولی وہ ہے، جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آجائے‘‘ (تفسیر خازن) اکابرین فرماتے ہیں کہ ’’ولی وہ ہے، جو طاعت سے قرب الہی طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالی کرامت سے ان کی کارسازی فرماتا ہے‘‘۔ (تفسیر روح البیان)
حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ فرماتے ہیں کہ ’’ولی وہ ہے، جس کا چہرہ زرد، آنکھیں تر اور پیٹ بھوکا ہو‘‘۔ چوں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ذات بابرکت پر دروازہ نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے، اب قیامت تک کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا، لیکن کارہائے نبوت کو جاری رکھنے کے لئے اللہ عزوجل، اولیاء کرام کو پیدا فرماتا رہے گا۔ یہ اولوالعزم ہستیاں مخلوق خداوندی کو گمراہی سے بچاکر ہدایت کا راستہ بتاتے رہیں گے۔ انھیں برگزیدہ اور مقبول بندوں میں سردار اولیاء حضرت محبوب سبحانی، قطب ربانی، غوث صمدانی سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام نامی اسم گرامی سرفہرست ہے۔
حضرت سیدنا غوث اعظم خاندانی شرافت اور نسبی وجاہت کے اعتبار سے حسنی و حسینی سید ہیں۔ آپ کا خاندان ولایت کا سرچشمہ ہے۔ آپ کے والدین، ناناجان، پھوپھی صاحبہ اور آپ کے فرزندان سب کے سب ولایت کے درخشندہ ستارے ہیں۔ آپ کے والد ماجد حضرت سیدنا ابوصالح (جنگی دوست) رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے صالحین میں یکتائے زمانہ تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ بھی مذہبی اعتبار سے وحیدۂ عصر تھیں۔ آپ کے نانا جان حضرت شیخ عبد اللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ بڑے جلیل القدر عابد و زاہد، مستجاب الدعوات اور صاحت کرامت ولی تھے۔ آپ کی پھوپھی حضرت سیدہ عائشہ علیہا الرحمہ بڑی صاحت کرامت ولیہ تھیں۔ ایک مرتبہ گیلان میں بارش باکل نہیں ہوئی اور خلق خدا قحط وبال سے بدحال ہوگئی تو لوگ آپ کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوئے۔ آپ نے صحن میں جھاڑو دے کر آسمان کی طرف سر اٹھایا اور عرض کیا: ’’اے میرے پروردگار! میں نے جھاڑو دے دی ہے، تو چھڑکاؤ کردے‘‘۔ اتنا عرض کرنا تھا کہ اچانک آسمان پر بادل امنڈ آئے اور ایسی موسلا دھار بارش ہوئی کہ لوگ نہال ہو گئے۔ اسی خاندان کے چشم و چراغ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ بھی مادرواز ولی ہیں، چنانچہ ولادت کے بعد آپ سے یہ کرامت ظاہر ہوئی کہ آپ نے رمضان المبارک میں طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کبھی اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا۔ آپ کی یہ کرامت بہت مشہور ہوئی کہ سادات گھرانے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے، جو رمضان شریف میں دن بھر دودھ نہیں پیتا۔
ایک مرتبہ لوگوں نے سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ’’آپ کو اپنی ولایت کا علم کب ہوا؟‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ ’’دس برس کی عمر میں جب میں مکتب میں پڑھنے کے لئے جاتا تو ایک غیبی آواز آتی تھی، جس کو اہل مکتب سنا کرتے تھے کہ اللہ کے ولی کے لئے جگہ کشادہ کرو‘‘۔ تاجدار بغداد حضرت غوث اعظم کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ آپ نے چالیس برس تک عشاء کے وضوء سے فجر کی نماز پڑھی اور پندرہ برس تک مسلسل نماز عشاء کے بعد صبح تک بلاناغہ مکمل قرآن مجید کی تلاوت فرماتے۔
حضرت غوث اعظم ایک مرتبہ بازار سے گزر رہے تھے، جسم مبارک پر قیمتی قبا تھی، چور کی نگاہ اس قبا پر پڑھی اور اس کی نیت بدل گئی اور وہ آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا، یہاں تک کہ آپ اپنے حجرۂ ولایت میں داخل ہو گئے۔ چور بھی موقع پاکر مکان میں داخل ہو گیا۔ شہنشاہ جیلاں نے قبا اتاری اور عبادت میں مصروف ہو گئے۔ چور چپکے سے قبا بغل میں دباکر فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن اللہ تعالی نے اس کی بینائی چھین لی اور وہ اندھا ہو گیا۔ چور دروزہ تلاش کر رہا تھا اور دوسری جانب حضرت غوث اعظم اس کے لئے ولایت کا دروازہ کھول رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے دروازے پر دستک دی۔ فرمایا: ’’کون؟‘‘۔ جواب آیا کہ ’’میں خضر ہوں، فلاقہ علاقہ کے ابدال کا وصال ہو گیا ہے، اس علاقہ کے لئے ابدال لینے آیا ہوں‘‘۔ اس دوران چور اندر بیٹھا ہوا خوف سے بدحال تھا اور ادھر حضرت غوث اعظم فرما رہے تھے کہ ’’اے خضر! صبح کسی کو مقرر کردیا جائے گا‘‘۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: ’’اگر صبح تک وہ علاقہ ہلاک و برباد ہو گیا تو ذمہ دار کون ہوگا؟‘‘۔ ولایت کے بحر بیکراں میں رحم و کرم کی موج اٹھی، آپ نے فرمایا: ’’جاؤ میرے مکان کے ایک گوشہ میں ایک ابدال موجود ہے، اسے لے جائیے‘‘۔ حضرت خضر نے فرمایا: ’’اے ابدال! ہمارے ساتھ چلئے‘‘۔ چور نے عرض کیا: ’’میں ابدال نہیں چور ہوں‘‘۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: اب تک تم چور تھے، لیکن حضرت غوث اعظم کی نگاہ کرم سے ابدال ہو گئے‘‘۔ معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کی نظرعنایت سے تقدیر سنور جاتی ہے۔ بقول علامہ اقبال:
کوئی اندازہ کرسکتا ہے ان کے زور بازو کا
نگاہ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں