قاتل سے محبت کیوں

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
قاتل سے محبت کیوں
ملک بھر میں لوک سبھا انتخابات 2019 اپنے اختتامی مراحل میں قدم رکھ چکے ہیں۔ 24 گھنٹوں بعد رائے دہی کا عمل شروع ہونے والا ہے اور ان انتخابات کی مہم کے دوران انتہائی منفی رجحان چھایا رہا ۔ برسر اقتدار جماعت بی جے پی کے قائدین کی جانب سے خاص طور پر منفی تقاریر کو اہمیت دی گئی اور دوسری جماعتوں اور ان کے قائدین کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ متنازعہ ریمارکس کئے گئے ۔ ایک دوسرے کو شخصی رکیک حملوں کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا اور منفی طرز عمل کے ذریعہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اب جبکہ صرف ایک مرحلہ کی رائے دہی کیلئے بھی چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے ہیں ایسے میں بی جے پی کی بھوپال لوک سبھا حلقہ کی امیدوار پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی جانب سے گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن قرار دیتے ہوئے ایک نیا تنازعہ پیدا کردیا گیا تھا ۔ چونکہ ابھی کچھ نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے جانے باقی ہیں اور الیکشن کمیشن ابھی سرگرم رول میں ہے ایسے میں بی جے پی فوری حرکت میں آتی ہے اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی دکھاوے کیلئے سرزنش کرتی ہے ۔ ان کے بیانات سے خود کو لا تعلق ظاہر کرتی ہے تاہم اس سے قبل بی جے پی کے مزید دو قائدین پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے بیان کی حمایت میں میدان میں کود پڑتے ہیں۔ ایک تو مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڈے ہیں ۔ ہیگڈے بھی متنازعہ بیانات کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ بی جے پی حکومت ملک کے دستور کو ہی بدلنا چاہتی ہے ۔ اب انہوں نے پرگیہ ٹھاکر کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اچھی بات یہ ہے کہ اب گوڈسے کو ایک نیا تناظر میں دیکھا جانے لگا ہے اور اس پر مباحث اچھی بات ہیں۔ بی جے پی کی ایک رکن پارلیمنٹ نلن کتیل بھی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے بیان کی حمایت میں ہی میدان میں اتری تھیں اور انہوں نے گوڈسے کا تقابل راجیو گاندھی سے کیا تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اعلی قیادت آخری مرحلہ کی رائے دہی میں ووٹرس کی برہمی کو جھیلنے تیار نہیں ہے اور چونکہ اب بھی الیکشن کمیشن کا رول سرگرم ہے اسی لئے ان بیانات سے خود کو اس نے لا تعلق کرلیا ۔
بی جے پی نے حالانکہ اس بیان سے خود کو لا تعلق کرلیا ہے اور ان تینوں قائدین کی سرزنش بھی کی ہے لیکن اس نے ان تینوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی حالانکہ ان خیالات ہی کی حمایت کرتی ہے لیکن چونکہ وہ الیکشن کمیشن کی کسی کارروائی سے بچنا چاہتی ہے اور عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنے کی بھی متحمل نہیں ہوسکتی اس لئے اس نے اس بیان سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ان تینوں کے معاملہ کو تادیبی کارروائی کمیٹی سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ بی جے پی فوری حرکت میں آتے ہوئے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو پارٹی سے ہی خارج کردیتی اور دوسرے اس کی حمایت کرنے والے قائدین کو معطل کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا جاتا ۔ لیکن بی جے پی نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے ۔ یہ پہلا موقع بھی نہیں ہے جب اس ملک میںناتھو رام گوڈسے کی حمایت میں زبانیں کھولی گئی ہیں۔ کئی موقعوں پر تو گاندھی جی کی ہتک اور توہین تک کی گئی اور ان کے خلاف توہین آمیز ریمارک کئے گئے لیکن ان مواقع پر بی جے پی نے خاموشی اختیار کی تھی کیونکہ اس وقت اسے الیکشن کمیشن یا ملک کے رائے دہندوں کا کوئی خوف نہیں تھا ۔ اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ بی جے پی اس طرح کے خیالات کو نا پسند کرنے والی جماعت نہیں ہے بلکہ وہ موقع اور حالات کی مناسبت سے موقف اختیار کرتی ہے ۔
ہندوستان بھر کے لوگ گاندھی جی کو بابائے قوم تسلیم کرتے ہیں۔ ایک موقع پر بی جے پی کے قائدین ہی کا کہنا تھا کہ دستور میں بابائے قوم جیسی کوئی اصطلاح استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اسی طرح اب ناتھو رام گوڈسے کی حمایت کی جا رہی ہے ۔ اسے محب وطن قرار دیا جارہا ہے اور ایسا کرنے والوں کی حمایت میں بھی دوسرے لوگ بھی میدان میں آ رہے ہیں۔ یہ لوگ بھی وہ ہیں جو بی جے پی سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ مرکزی وزارت رکھتے ہیں اور پارلیمنٹ کی رکنیت بھی رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی کے قائدین کو آخر گوڈسے سے محبت کیوں ہے ؟ ۔ ان قائدین کو ملک کے عوام کے سامنے وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ آخر کس کے نظریات میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کیلئے گاندھی جی اہم ہیں یا گوڈسے ۔