قاتلوں کی رہائی کا معاملہ

قاتل بھی جو بے داغ بری ہوتے رہیں گر
اُمید کیا رکھے کوئی انصاف کی ہم سے
قاتلوں کی رہائی کا معاملہ
ہندوستان میں کسی عام شہری کا قتل اور قاتل کو سزاء دینے کا معاملہ الگ اور کسی وزیراعظم کے قتل کے الزام میں سزاء کاٹ رہے افراد کو رہا کردینے کا مسئلہ کیا نوعیت پیدا کرے گا یہ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی کے بعد رونما ہونے والی صورتحال اور وفاقی، سیاسی و قانونی اصولوں کے آئینہ میں کیا کروٹ لے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ فی الحال مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر حکومت ٹاملناڈو کے اس اقدام کو روکنے کی درخواست داخل کی تھی جس پر حکم التواء مل چکا ہے۔ حکومت ٹاملناڈو راجیو گاندھی قتل کیس کے مجرمین کو رہا کرنے کا فیصلہ کرکے سیاسی طور پر جرأت مندانہ اقدام کرنے جارہی تھی مستقبل میں اس کے مختلف اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ پر حملہ کا منصوبہ بنانے والوں کو اس ملک کی عدالت اور قانون نے پھانسی دی ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ اور وزیراعظم کے قتل کے کیس معاملے میں سنگینی کہاں پائی جاتی ہے اس پر دھیان دیا جائے تو عام خیال کیا ہوگا یہ توجہ طلب ہوگا۔ حکومت ٹاملناڈو نے ان 7 افراد کو رہا کرنے پر غور کیا ہے جن کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیاگیا۔ ان سات قیدیوں میں متھن، مرگن اور پیرارپولن شامل ہیں۔ جن کی پھانسی کی سزاء گذشتہ منگل کو عمر قید میں تبدیل ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ رہائی کے منتظر افراد میں مرگن کی اہلیہ نلینی شری ہرن، رابرٹ پائیسن جے کمار اور روی چندرن شامل ہیں۔ نلینی کی سزائے موت کا پہلے ہی کانگریس کی صدر اور راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی کی سفارش پر عمرقید میں تبدیل کیا گیا تھا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دم بھرنے والی طاقتوں نے سزائے موت کو برخاست کرنے کی مہم چلائی ہے۔ اس جذبہ کو ملحوظ رکھ کر چیف منسٹر ٹاملناڈو جیہ للیتا بھی سات ملزمان کی رہائی کی مرکز سے سفارش کرنی ہے۔ اگر مرکز نے 3 دن کے اندر اس سفارش کو قبول نہیں کیا تو وہ ریاستی اختیارات کو بروئے کار لاکر ملزمان کو رہا کرنے کا حکم جاری کرنے والی تھیں۔ راجیو گاندھی کو مئی 1991ء میں ٹاملناڈو کے علاقہ ترمبدور میں ایک انتخابی ریالی کے دوران خودکش حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔

اس حملے میں دیگر کئی افراد بھی مارے گئے تھے۔ حکومت ٹاملناڈو جن سات ملزمان کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ تمام گذشتہ 23 سال سے جیل میں محروس ہیں۔ تعزیرات ہند کی دفعہ 432 کے تحت ریاستی حکومت تو دیئے گئے حقوق سے استفادہ کرتے ہوئے جیہ للیتا حکومت متھن، مرگن اور پیرارپولن کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان تمام کو ٹاڈا کی عدالت نے سزاء سنائی تھی لیکن بعد کے برسوں میں ملزمین نے رحم کی درخواست پیش کی تھی جس پر حکومت نے 11 سال کی تاخیر کے بعد بھی رحم کی درخواست پر غور نہیں کیا تھا۔ منگل کے دن سپریم کورٹ نے حکومت کی اس تاخیر کا ذکر کرتے ہوئے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے حوصلہ پاکر چیف منسٹر جیہ للیتا سیاسی مقاصد کے حصول کی حیثیت سے ملزمان کو رہا کرتی ہیں تو ہندوستان میں قتل اور قاتلوں کی سزاء کو لیکر ایک نئی بحث چھڑ جائے گی اور اس طرح کے کیسوں میں ملوث افراد کے خلاف سزاء کے اطلاق کے معاملہ میں امتیاز برتنے کا الزام عائد ہوگا کیونکہ حال ہی میں پارلیمنٹ پر حملہ کا منصوبہ بنانے کی پاداش میں افضل گرو کو پھانسی دی جاچکی ہے۔ ایک وزیراعظم اور کئی انسانوں کے قتل میں ملوث افراد کو رہا کردیا جائے تو افضل گرو کے قصور اور ٹاملناڈو میں رہا پانے والے ملزمین کے خطاؤں کا موازنہ کرنے والوں کو صدمہ ہوسکتا ہے۔ دہشت گردی کا کوئی دوہرا پیمانہ نہیں ہوسکتا اور اسی طرح دہشت گردوں کو سزاء دینے کے معاملہ میں بھی دوہرا پن نہیں ہونا چاہئے۔ جب اپنے سیاسی مطلب کی بات آتی ہے تو دوہرے پن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

اگر انسانی حقوق کا اتنا ہی خیال ہو تو ہندوستان میں سزائے موت کو برخاست کردینے کے معاملہ پر غور کیا جاسکتا ہے لیکن حکومت ایسا کرسکے گی یہ ممکن نہیں ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ کے کیس میں جب ایک شخص کو پھانسی دی جاتی ہے اور دیگر قاتلوں کے ساتھ رحم کا معاملہ ہوتا ہے تو اس کو سیاسی مطلب پسندی کہا جائے گا انصاف کا تقاضہ نہیں۔ حکمرانوں کی نظر میں ملک کے ایک وزیراعظم کی موت کے ذمہ دار اور پارلیمنٹ پر حملہ کا منصوبہ بنانے والے میں سب سے زیادہ کس کا جرم ہے یہ سوال اہم ہے۔ اگر دونوں جرائم سنگین ہیں تو پھر سزاء کے معاملوں میں مختلف رویہ کیوں ہونا چاہئے۔ یہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ اس کو انسانی جذبہ کے ساتھ ساتھ انصاف کے تقاضہ کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے۔ جس ملک میں ایک وزیراعظم کے قاتلوں کو رہائی ملتی ہے تو پھر عام شہریوں کا قتل کرنے والوں کو کیا اور کیسی سزاء ہونی چاہئے؟ قتل کیسوں کی سزاؤں کا نیا معیار مقرر ہونے جارہا ہے تو پھر عام انسانوں کی زندگیوں کا تحفظ کیسے کیا جائے گا۔ یہ سوالات سیاسی و قانونی حلقوں میں جواب طلب ہیں۔