نئی دہلی ۔ 24 ۔ مارچ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آج ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے سائبر قانون میں فراہم متنازعہ گنجائش کو حذف کردیا۔ اس قانون کے تحت ویب سائیٹس پر ’’قابل اعتراض‘‘ مواد شائع کرنے کی صورت میں گرفتاری کی گنجائش تھی۔ عدالت نے اسے غیر دستوری اور اظہار خیال کی آزادی پر کاری ضرب قرار دیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 66A میں جو صراحت کی گئی ہے وہ بالکلیہ غیر واضح اور ناقابل فہم ہے۔ تاہم بنچ نے اس ایکٹ کی دفعہ 69A اور 79 کو حذف کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ یہ دونوں دفعات بالترتیب سائیٹس کو بلاک کرنے اور بعض معاملات میں درمیانی فرد کے رول کو ختم کرنے سے متعلق ہیں۔
جسٹس جے چلمیشور اور جسٹس آر پی نریمان پر مشتمل سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے کہاکہ یہ دفعہ اصطلاحات ’’جارحانہ‘‘ اور ’’انتہائی جارحانہ‘‘ کی وضاحت نہیں کرتی۔ جس سے آزادیٔ تقریر اور آزادیٔ اظہار خیال کے بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں۔ جن کی ضمانت دستور میں دی گئی ہے۔ عدالت نے اُن وجوہات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہاکہ یہ دفعہ غیر دستوری ہے۔ اس میں ’’غصہ دلانے والا، غیر سہولت بخش اور انتہائی جارحانہ‘‘ جیسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں جو واضح نہیں ہیں۔ نفاذ قانون محکموں کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور خاطی بھی نہیں جانتا کہ کونسا مواد جارحانہ ہے۔ بنچ نے برطانیہ کی دو عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیا جنھوں نے مختلف نتائج اخذ کئے تھے
اور متنازعہ مواد کو جارحانہ قرار دیا جائے یا انتہائی جارحانہ، اس کا فیصلہ نہیں کرسکی تھیں۔ بنچ نے حکومت کے استدلال کو تسلیم نہیں کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس دفعہ کا بیجا استعمال نہ ہو۔ شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے کی 2012 ء میں موت کے بعد بند کے تعلق سے شاہین دھادا کے فیس بک تبصرہ پر اسے گرفتار کیا گیا تھا ۔ قانون کے طالب علم شرییا سنگھل نے شاہین اور رینو سرینواسن کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ آج کے فیصلے کے بعد شاہین کے والد فاروق دھادا نے توقع ظاہر کی کہ ایسے قوانین کا بیجا استعمال نہیں ہوگا ۔ اسی طرح سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر اعظم خاں کے خلاف فیس بک تبصرہ پر 12 سالہ لڑکے کو گرفتار کیا گیا تھا۔