حیدرآباد ۔ 28 ۔ اپریل : ( ابوایمل ) : سرزمین دکن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے لسان الامت قائد ملت بہادر یار جنگ جیسی عظیم ہستی نے دنیا کے مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا پیغام دیا اور انہیں بتایا کہ قرآن مجید اور اپنے آقا و مولیٰ خاتم النبین حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کا دامن مضبوطی سے تھام لو تب ہی تم دین و دنیا میں سرخرو ہوسکتے ہو ورنہ ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی تمہارا مقدر ہوگی اور دوسری قومیں تم پر بھوکے جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑیں گی ۔ قائد ملت نے نہ صرف حیدرآباد دکن بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کو اس وقت خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی جب ہر طرف ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے انہیں انکی سلطنتوں ، جاگیروں ، عزتوں و عفتوں ، وقار و احترام سے محروم کیا جارہا تھا ۔ قائد ملت بہادر یار جنگ کا شمار ملت کے ان سپوتوں میں ہوتاہے جنہوں نے ملت کے لیے وقف کردیا تھا ۔ قائد ملت بہادر یار جنگ کی رہائش بیگم بازار میں واقع ایک شاندار کوٹھی میں تھی ۔ جس کے باقیات آج بھی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم نے کسی بے رخی اور بے رحمی سے ایسے محسن کو فراموش کردیا ہے ان کی برسی کے موقع پر جلسے ، جلوس اور ان کی مزار پر چادر چڑھائی جاتی ہے ۔ لیکن کوئی ان کی اس عظیم الشان کوٹھی کی سمت توجہ نہیں دیتا ۔ بہادر یار جنگ کی کوٹھی کو ’بیت الامت ‘ کہا جاتا ہے لیکن آج یہ رفتہ رفتہ کھنڈر میں تبدیل ہوتی جارہی ہے ۔ فن تعمیر کے لحاظ سے بھی یہ کوٹھی اپنی نظیر نہیں رکھتی کیوں کہ اس کا باب الداخلہ کل لکڑی سے تیار کیاگیا ہے ۔ جس کی بلندی 30 فٹ اور چوڑائی 15 فیٹ ہے ۔ جس کو دیکھ کر عقل کچھ دیر کے لیے ساکت ہوجاتی ہے ۔ جس قائد نے ملت کے وقار کو بلند کرنے کے لیے ساری زندگی متحرک رہے اور اپنی رہائش گاہ کو ہی بیت الامت یعنی امت کا گھر بنادیا لیکن یہ بے حس قوم نے ان کی تاریخی کوٹھی کو اغیار کے ہاتھوں اسے تنہا چھوڑ دیا کہ وہ من چاہا سلوک کریں ۔ کوٹھی کے اندرونی حصہ کی حالت تو زیادہ خراب ہے تقریبا نصف حصہ تو گرچکا ہے ۔ کوٹھی کا ایک تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ بہ آسانی کہا جاسکتا ہے کہ فن تعمیر کی شاہکار اور ملت کے اس اثاثہ کو میوزیم بنایا جاسکتا ہے ۔ پڑوسی مارواڑی کے مکان سے جب کوٹھی کا نظاہرہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک اندازہ کے مطابق یہ حویلی 2 ہزار گز اراضی پر محیط ہے ۔ بیگم بازار کے لوگ آج بھی اس عمارت کو بیت الامت ، نواب صاحب کا بنگلہ ‘ کہتے ہیں ۔ الغرض ملت کے محسنوں میں قائد ملت بہادر یار جنگ کا نام سب سے پہلے آتا ہے ۔ دیگرمحسنوں کے ساتھ ان کی خدمات کو فراموش نہ کیا جانے کے علاوہ آج جہاں ہم ان کی برسی کا اہتمام کرتے ہیں اور اس موقع پر جلسے و جلوس کا پورا پورا اہتمام کرتے ہیں وہیں ان کی اس کوٹھی کو کھنڈر بننے سے روکنے اور اسے ایک میوزیم میں تبدیل کرنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کو یقینی بنانا چاہئے اور یہ ایک اجتماعی ذمہ داری بھی ہے ۔ واضح رہے کہ قائد ملت کی پیدائش 3 فروری 1905 کو اسی کوٹھی میں ہوئی تھی جب کہ ان کا انتقال 25 جون 1944 کو ہوا تاہم ان کی برسی اسلامی ماہ رجب کی مناسبت سے منائی جاتی ہے۔ صرف 39 سالہ زندگی میں انہوں نے ایسا تاثر چھوڑا کہ دوسرے صدیوں میںبھی نہیں چھوڑ سکتے ۔۔