آشیانہ آپ کا ہے جس گھنیرے پیڑ پر
کاٹنے اُسکو تُلے ہیں آپ جانے کس لئے
قائد اپوزیشن کا مسئلہ
ملک میں ہوئے حالیہ لوک سبھا انتخابات کے بعد سے جہاں سیاسی صورتحال میں استحکام کی کیفیت پیدا ہوئی ہے وہیں اپوزیشن کا وجود عملی طور پر ختم ہوکر رہ گیا ہے اور کوئی بھی جماعت مسلمہ اپوزیشن کا موقف حاصل نہیں کرسکی ہے ۔ کانگریس پارٹی کو جو گذشتہ دس سال سے اقتدار پر تھی صرف 44 لوک سبھا نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے جس کے نتیجہ میں اصولی طور پر وہ قائد اپوزیشن کا عہدہ بھی حاصل کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ ہندوستان چونکہ جمہوری ملک ہے اس لئے جمہوریت میں قائد اپوزیشن کے عہدہ کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ اس کا احساس خود حکومت کو بھی ہے اورملک کے عوام بھی اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں ۔ انتخابات کے بعد نریندر مود ی کی قیادت میں قائم ہوئی بی جے پی حکومت نے تاہم ابھی تک ا س مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی ہے اور اس نے ابھی تک اس مسئلہ پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے کی بجائے سب کو تجسس کاشکار کیا ہوا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت ہر مسئلہ ک طرح اس مسئلہ پر بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور کانگریس کو ہتک کا شکار کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے تاہم حکومت کا یہ منصوبہ ملک کی جمہوری طرز حکمرنی کیلئے بہتریا درست نہیں کہا جاسکتا ۔ کانگریس پارٹی درکار تعداد سے اپنے طور پر محروم رہنے کے باوجود یہ عہدہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس نے اپنے ارادے بھی واضح کردئے ہیں۔ کانگریس پارٹی کا یہ استدلال ہے کہ حالانکہ وہ جماعت کی سطح پر یہ عہدہ حاصل نہیں کرسکتی لیکن چونکہ ماقبل انتخابات اس کا اتحاد یو پی اے کی شکل میں موجود تھا اسلئے انتخابات کے بعد بھی اسے ایک اکائی سمجھتے ہوئے یہ عہدہ دیا جانا چاہئے ۔ اسپیکر لوک سبھا سمترا مہاجن نے اس مسئلہ کو لیت و لعل کا شکا ر کر رکھا ہے اور ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ یہ کہا جارہا تھا کہ لوک سبھا کے بجٹ اجلاس سے قبل اس عہدہ کے تعلق سے کوئی فیصلہ کرلیا جائیگا تاہم بجٹ اجلاس شروع ہوکر ختم بھی ہوگیا لیکن حکومت نے یا اسپیکر لوک سبھا نے اس تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ ا ب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی چلا گیا ہے اور عدالت نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس اہم ترین مسئلہ پر اپنے موقف کو واضح کرے اور کوئی فیصلہ کرلے ۔ لیت و لعل کی موجودہ کیفیت کو اب ختم ہونا چاہئے ۔
عدالت کی ہدایت یقینی طور پر اہمیت کی حامل ہے کیونکہ قائد اپوزیشن کا مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ جس طرح حکومت کا قیام جمہوری طرز عمل میں اہمیت کا حامل ہے اس طرح قائد اپوزیشن کا عہدہ بھی جمہوری حکمرانی کا حصہ ہے اور اس حقیقت کو نریندر مودی حکومت کو سمجھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنا چاہئے ۔ یہ فیصلہ بھی ایسا ہونا چاہئے جس سے ملک کی جمہوری طرز حکمرانی کی بنیادوں کو استحکام حاصل ہوسکے نہ کہ یہ طرز عمل کمزور رہوجائے ۔ ملک میں کئی اہم عہدوں پر تقررات کیلئے جو پیانل ذمہ دار ہوتا ہے اس میں بھی قائد اپوزیشن کو شامل رہنا پڑتا ہے ۔ اگر حکومت موجودہ لوک سبھا کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کانگریس پارٹی کو اس عہدہ سے محروم کرتی ہے تو یہ پیانل ایسے ہونگے جو صرف حکومت کی اجارہ داری تک محدود ہوکر رہ جائیں گے اور کئی اہم تقررات میں اپوزیشن کی رائے اور اس کی تجاویز شامل نہیں ہونگی ۔ یہ ہندوستانی طرز حکمرانی کیلئے بہتر مثال نہیں کہی جاسکتی ۔ نریندر مودی حکومت کو جہاں اپنے طور پر اکثریت حاصل ہوئی ہے اس کے باوجود اس نے این ڈی اے میں شامل جماعتوں کو بھی حکومت کا حصہ دار بنایا ہے تو ایسے میں اسے اعداد و شمار پر ہی اکتفا کرتے ہوئے کانگریس کو اپوزیشن کے عہدہ سے محروم کرنے کی بجائے سیاسی وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے ملک کی جمہوریت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کیلئے فراخدلی کے ساتھ کانگریس کو یہ عہدہ دینے کے تعلق سے غور کرنا چاہئے ۔
قائد اپوزیشن کے مسئلہ پر جس طرح کی صورتحال فی الحال بنی ہوئی ہے وہ اچھی نہیں کہی جاسکتی کیونکہ قائد اپوزیشن کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے کانگریس پارٹی بضد ہے وہیں حکومت بھی کانگریس کو ہتک اور بے عزتی کا پورا پورا احساس دلانے کیلئے کمربستہ نظر آتی ہے ۔ اس کی مثال حالیہ عرصہ میں ایک دو تقاریب میں بھی ملی ہے جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں غیر بی جے پی چیف منسٹروں کی ہتک کی گئی ہے ۔ اس سے مرکز ۔ ریاست تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں اور وفاقی ڈھانچہ کا استحکام متاثر ہوسکتا ہے ۔ مرکز میں حکومت حاصل کرلینے کے بعد بی جے پی کو اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ اگر اقتدار کے نشہ میں اپوزیشن کو اس کی مراعات سے محروم کیا جاتا ہے تو اس کا لازم اثر ملک کی جمہوریت پر پڑیگا اور اس کی بنیادیں مستحکم ہونے کی بجائے کمزور ہوجائیں گی ۔ جمہوریت کا ہی نتیجہ تھا جس کے نتیجہ میں بی جے پی کو حکومت حاصل ہوئی ہے اور اسے اس کو کمزور کرنے کی بجائے مستحکم کرنے کو ترجیح دینی چاہئے ۔