فیض علیؓ کا منکر فیض مصطفیؐ کا منکر

حبیب محمد بن عبداﷲ رفیع المرغنی
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔
علیؓ کا ذکر عبادت ہے : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’حضرت علیؓ کا ذکر عبادت ہے‘‘۔اللہ کی عزت کی قسم اگرکسی کی ساری رات حب علی ؓمیں علیؓ علیؓ کرتے گزر گئی تو خدا کے حضور یہ ورد عبادت میں شمار ہو گا کیونکہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کے مطابق علیؓ کا ذکر عبادت ہے۔
چہرہ علیؓ کو دیکھنا بھی عبادت:  ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓروایت کرتی ہیںحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑی کثرت کے ساتھ حضرت علیؓ کے چہرے کو دیکھتے رہتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت علیؓ کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔
حضرت علی ؓ مولائے کائنات:چونکہ ولایت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض حضرت علیؓ سے چلنا تھا اور ’’ذبح عظیم‘‘ حسین ؓکو ہونا تھا اس لئے ضروری تھا کہ ولایت مصطفی ﷺ، ولایت علی شیر خدا بن جائے اور ولایت علی شیر خدا ولایت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تصور کی جائے۔
حضرت ریاح بن حرث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک گروہ حضرت علی کے پاس رحبط کے مقام پر آیا انہوں نے کہا اے ہمارے مولا تجھ پر سلام ہو ۔ آپ نے فرمایا میں کیسے تمہارا مولا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ’’غدیرخم،، کے مقام پر حضور نبی کریم ﷺسے سنا ہے کہ جس کا میں ولی ہوں اس کا یہ (علی) مولا ہے۔(مسند احمدبن حنبل)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا کہ’’ جس کا میں ولی ہوں علی اس کا مولا ہے‘‘۔

پہلے تاجدار عرب و عجم نے فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کا مولا ہے پھر فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے۔ نبی ہونے اور نبی کا امتی ہونے کا فرق رہتا ہے لیکن دوئی کا ہر تصور مٹ جاتا ہے اس لئے کہ باطل دوئی پسند اور حق لا شریک ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ خداوندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور فرمایا میرے اللہ جو علی کو ولی جانے تو اس کا ولی بن جا یعنی جو علی سے دوستی کرے تو بھی اس کا دوست بن جا اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس کا دشمن ہو جا، جو علی کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو علی کے ساتھ ہے تو بھی اس کے ساتھ ہو جا۔گویا حضرت علی کے چہرہ انور کو دیکھتے رہنا بھی عبادت، ان کا ذکر بھی عبادت، حضور فرماتے ہیں کہ علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ارشاد ہوا کہ جس کا ولی میں ہوں علی اس کا مولا ہے پھر ارشاد ہوا کہ جس کا میں مولا علی بھی اس کا مولا اور یہ کہ میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ، علم کا حصول اگر چاہتے ہو تو علی کے دروازے پر آ جاؤ اور دوستی اور دشمنی کا معیار بھی علی ٹھہرے۔
جو شخص ولایت علی کا منکر ہے وہ نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، جو فیض علیؓ کا منکر ہے وہ فیض مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی منکر ہے جو نسبت علیؓ کا منکر ہے، وہ نسبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، جو قربت علیؓ کا باغی ہے وہ قربت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغی ہے، جو حب علیؓ کا باغی ہے وہ حب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی باغی ہے اور جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغی ہے وہ خدا کا باغی ہے۔

حضرت عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا اور جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ عزوجل کی ولایت کو مانا۔اور جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
دونوں جہانوں کے سید: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا اے علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے، جو تیرا حبیب (دوست) ہے وہ میرا حبیب ہے اور جو میرا حبیب ہے وہ اللہ کا حبیب ہے، جو تیرا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو میرا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے اور بربادی ہے اس شخص کیلئے جو میرے بعد تجھ سے بغض رکھے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عرب کے سردار کو میرے پاس بلاؤ۔ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ عرب کے سردار نہیں ہیں یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور علیؓ عرب کے سردار ہیں۔

غوثیت سے قطبیت تک وسیلہ جلیلہ: ولایت علیؓ کے فیض کے بغیر نہ کوئی ابدال بن سکا اور نہ کوئی قطب ہوسکا۔ ولایت علیؓ کے بغیر نہ کسی کوغوثیت ملی اور نہ کسی کو ولایت، حضرت غوث الاعظم جو غوث بنے وہ بھی ولایت علیؓ کے صدقے میں بنے، امامت، غوثیت، قطبیت، ابدالیت سب کچھ ولایت علیؓ ہے، اس لئے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’جس نے علیؓ کو گالی دی اس نے مجھ کو گالی دی‘‘۔اس سے بڑ ھ کردوئی کی نفی کیا ہوگی اور اب اس سے بڑھ کر اپنائیت کا اظہار کیا ہوگا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے علیؓ کو گالی دی وہ علیؓ کو نہیں مجھے دی۔
طبرانی اور بزار میں حضرت سلمان سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا:’’علی تجھ سے محبت کرنے والا میرا محب ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے‘‘۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے (حضرت) علی کی اطاعت کی تحقیق اس نے میری اطاعت کی اور جس نے (حضرت) علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علیؓ کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی بتا رہے ہیں۔ مدعا یہ تھا کہ یہ بات طے پا جائے اور اس میں کوئی ابہام نہ رہے کہ ولایت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض حضرت علیؓ سے چلا ہے اور علی کی اطاعت چونکہ رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی ضامن ہے لہذا علی کی اطاعت اطاعت الہٰی کا ذریعہ ہے۔
قرآن اور علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علیؓ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؓ کے ساتھ ہے یہ دونوں (اس طرح جڑے رہیں گے اور) جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔
یہ کہہ کر بات ختم کر دی علیؓ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؓ کے ساتھ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات سے علیؓ کی ذات کو جدا نہیں کرتے۔ یہاں قرآن سے علیؓ کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علیؓ اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علیؓ اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔
جلال نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت گفتگو کا یارا  : حضرت ام سلمہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت غضب میں ہوتے تھے تو کسی میں یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام کرے سوائے حضرت علیؓ کے۔