حیدرآباد 26 جنوری (سیاست نیوز) بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں بھی خاصی تبدیلی نظر آرہی ہے۔ اس دور میں انفارمیشن ٹکنالوجی کا انقلاب برپا ہوگیا ہے۔ وسیع و عریض دنیا ایک چھوٹے سے علاقے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ جس طرح ایک گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کو آسانی سے جانتے اور ملتے تھے ٹھیک اُسی طرح دنیا کے کوئی بھی حصہ میں رہنے والے لوگ دوسرے حصے کے لوگوں سے ربط پیدا کرسکتے ہیں۔ بس ضرورت ہے ایک کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کی جس میں انٹرنیٹ جیسی سہولیات موجود ہوں۔ اس کے ذریعہ آپ جب چاہیں دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود اپنے کسی دوست یا رشتہ دار یا کسی اجنبی سے بھی بات کرسکتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو ایک دوسرے کی تصویر یا ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے لئے کیمرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں صبح و شام اپنے اسمارٹ موبائیل فون یا لیپ ٹاپ پر لگے رہتے ہیں۔ آخر یہ لوگ اِس طرح مشغول رہ کر کیا کرتے ہیں؟ یہ سوال اُن لوگوں کے ذہن میں اُٹھتا ہے جن کے پاس اِس دور کی جدید ٹیکنالوجی کی معلومات نہیں۔ شہر میں اِس وقت دو اپلی کیشن نوجوانوں کے درمیان مقبول ہیں۔ پہلا WhatsApp اور دوسرا Facebook ہے۔ ان دونوں اپلی کیشنس کو کسی بھی لیٹسٹ موبائیل فون پر اُتارا جاسکتا ہے یا کمپنی کی طرف سے پہلے سے ہی موجود رہتا ہے۔ اس کے علاوہ لیپ ٹاپ یا ہاتھ کے تیب میں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ واٹس اَپ کے ذریعہ پیغامات کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ جس کے لئے کچھ بھی قیمت ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ واٹس اَپ کے ذریعہ کسی بھی طرح کے پیغامات کے علاوہ فوٹوز اور ویڈیوز بھی ایک موبائیل سے دوسرے موبائیل یا انٹرنیٹ پر تبادلہ کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آڈیو میڈیا کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب پیغامات صرف کچھ سیکنڈوں میں دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ بنیادی پیغام رسانی کے علاوہ صارفین اپنے گروپوں کو تشکیل دے سکتے ہیں۔ اور ایک دوسرے سے لامحدود تصاویر، پیغام وغیرہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اپنے دوستوں، رشتہ داروں وغیرہ کے ساتھ رابطے میں رہنے کی کوئی قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی ہے۔ واٹس اَپ کو 2009 میں امریکی Brain Acton اور یوکرین کے Jan Koum نے مشترکہ طور پر تیار کیا تھا۔ پہلے اس کا استعمال صرف امریکہ تک ہی محدود تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کی مقبولیت بڑھ گئی اور ساری دنیا میں عام ہوگیا۔ واٹس اَپ کے ذریعہ یومیہ چار سو ملین فوٹوز Shared کئے جاتے ہیں اور پیغام رسانی کے نظام سے دس ارب پیغامات کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق 400 ملین متحرک صارفین ہر ماہ واٹس اَپ کا استعمال کرتے ہیں۔
فیس بُک انٹرنیٹ کا ایک ویب سائٹ ہے جو اپنے صارفین کو ایک اکاؤنٹ کھولنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ فیس بُک صارف بننے کے لئے کوئی بھی ای میل آئی ڈی دینی پڑتی ہے۔ اس کے بعد اگر آپ اپنی شناخت ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تصویر اس اکاؤنٹ میں جوڑ دینا ہوگا تاکہ دنیا کے کسی بھی مقام پر لوگ آپ کے نام سے Search کرنے پر آپ کی فوٹو دیکھ کر پہچان لیں گے۔ فیس بُک کے ذریعہ ٹکسٹ، فوٹوز اور آڈیو یا ویڈیو کے پیغامات کا بھی دوسرے سے تبادلہ کرسکتے ہیں۔ فیس بُک کا استعمال نہ صرف اسمارٹ موبائیل فون پر کیا جاتا ہے بلکہ تیب اور لیب ٹاپ پر بھی کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں آٹھ سو ملین سے بھی زیادہ فیس بُک صارفین موجود ہیں۔ جو ٹکنالوجی کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ صارفین اپنی پسند کے گروپ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر لوگ گیمز بھی کھیل سکتے ہیں۔ فیس بُک کے ذریعہ کئی لوگ ایک دوسرے سے کئی سالوں بعد ملے ہیں۔ اپنے ملک کو چھوڑ کر دنیا کے دوسرے ملکوں میں روزی کی تلاش میں گئے ہوئے لوگ اپنے ملک کے دوستوں اور رشتہ داروں سے رابطہ کے اس بُک کا سہارا لیتے ہیں۔ اِس بُک نے کئی گمشدہ دوستوں، بھائیوں، رشتہ داروں وغیرہ کو ملانے کا کام انجام دیا ہے۔ شہر کے نوجوان موبائیل فون، تیب یا نیٹ کا زیادہ تر استعمال اپنے خالی وقت میں کررہے ہیں۔
آٹو میں سفر کرتے وقت یا بس میں سفر کرتے وقت یا کہیں انتظار کے وقت واٹس اَپ یا فیس بُک کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ جہاں اِس کا استعمال ضرورت کے لحاظ سے فائدہ مند ہے وہیں بے جا استعمال نقصان کا باعث بھی ہے۔ اِس سماجی میڈیا کا استعمال اگر اچھے مقاصد کے لئے ہو تو معاشرہ بہتر ہوسکتا ہے۔ لیکن افسوس شہر حیدرآباد میں کچھ نوجوان ایسے ہیں جو فیس بُک کے ذریعہ بھولے بھالے لوگوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ جھوٹے وعدے دھوکہ فریب وغیرہ ایک معمول بن گیا ہے۔ سائبر کرائم کے لحاظ سے اگر یہ افراد پکڑے جائیں گے تو اِن کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔ خاص طو رپر فحش کلامی یا تصاویر وغیرہ سے اجتناب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اِس مسئلہ سے محفوظ رہنے کے لئے والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں پر کڑی نظر رکھیں تاکہ دنیا کے سامنے بے عزتی سے بچے رہیں۔