فیس باز ادائیگی کی نئی پالیسی طلبہ کیلئے نقصان دہ ثابت ہونے کا امکان

بعض عہدیدار مکمل فیس ادائیگی کے مخالف، حکومت تلنگانہ کا غور وخوض
حیدرآباد 7 جون (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ کی جانب سے طلبہ کی فیس باز ادائیگی کے متعلق جاری غور و خوض سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی پالیسی طلبہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ حکومت کی جانب سے پروفیشنل کورسیس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو مکمل فیس باز ادائیگی کی اسکیم خطرہ میں نظر آرہی ہے۔ چونکہ حکومت اس بات پر غور کررہی ہے کہ طلبہ کو فیس باز ادائیگی کے لئے حد مقرر کی جائے چونکہ ایس سی، ایس ٹی، بی سی اور اقلیتی طلبہ کو فراہم کی جانے والی اسکالرشپس اُن تمام طلبہ کو حاصل ہورہی ہے جو اے زمرہ یعنی سرکاری کونسلنگ کے ذریعہ داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ریاست میں انجینئرنگ کالجس میں موجود ایک لاکھ سے زائد نشستوں کے سبب زائداز 30 فیصد طلبہ کو حکومت کی جانب سے فیس باز ادائیگی کے حصول کی توقع پیدا ہورہی ہے اور حکومت کی جانب سے یہ فیس ادا کرنی پڑرہی ہے۔ چونکہ بیشتر طلبہ جوکہ مالی اعتبار سے حکومت کی شرائط کے مطابق صداقت نامہ آمدنی پیش کررہے ہیں اُنھیں فیس کی اجرائی حکومت کی ذمہ داری ہوتی جارہی ہے۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاع کے بموجب حکومت میں موجود بعض اعلیٰ عہدیدار جو طلبہ کو مکمل فیس باز ادائیگی اسکیم کے خلاف ہیں، وہ ایسے اقدامات میں مصروف ہیں جس سے فیس باز ادائیگی اسکیم سے مستفید ہونے والے طلبہ کی تعداد میں گراوٹ پیدا ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ اسکالرشپس و باز ادائیگی معاملہ میں نئے شرائط و ضوابط مدون کرنے کے متعلق تبادلہ خیال جاری ہے اور امکان ہے کہ جاریہ ماہ کے اواخر تک اسکالرشپس و فیس باز ادائیگی اسکیم کے متعلق نئے قواعد جاری کرنے کا اعلان کردیا جائے گا۔ ذرائع کے بموجب کمیٹی کی جانب سے اس بات کی سفارش کئے جانے کا امکان ہے کہ فیس باز ادائیگی اسکیم سے استفادہ کنندگان کی فہرست کو ایمسٹ رینک کے مطابق رکھا جائے اور 5 ہزار تک رینک حاصل کرنے والوں کو ہی فیس باز ادائیگی اسکیم سے استفادہ کا موقع فراہم کیا جائے۔ جبکہ سابق میں ایمسٹ رینک کی فیس باز ادائیگی معاملہ میں کوئی اہمیت نہیں تھی بلکہ فیس باز ادائیگی سے استفادہ کے لئے اے زمرہ میں داخلہ حاصل کرنا ہی شرط ہوا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں والدین و سرپرستوں کی آمدنی کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے فیس باز ادائیگی اسکیم کے تحت طلبہ کی درخواستیں قبول کی جاتی تھیں لیکن نئے شرائط کے مطابق اگر صرف 5 ہزار رینک حاصل کرنے والے طلبہ تک اسکیم کو محدود کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں ہزاروں اقلیتی و غیر اقلیتی طلبہ کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے جو حکومت کی جانب سے فیس کی ادائیگی کے سبب اعلیٰ تعلیم کے حصول کا خواب پورا کررہے تھے۔ ریاستی حکومت اگر اس طرح کے شرائط نافذ کرتی ہے تو ایسی صورت میں حکومت کو فائدہ حاصل ہوگا لیکن بڑی تعداد میں غریب طلبہ جوکہ اعلیٰ تعلیم کا خواب پورا کررہے تھے اُنھیں نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔