فہم اور صورت شناسی

وحید اشرف
فہم قدرت کا ایک ایسا عطیہ ہے جس کو سمجھنا افکار کی پیچیدگیوں کا سبب ہے ۔ ہم جو کچھ سمجھتے ہیں ’’اس سمجھ کو‘‘ جب دوسروں کے سامنے بیان کرتے ہیں تو وہ اپنی فہم سے اس کا نتیجہ اخذ کر کے ہماری فہم اور سمجھ پر اثر انداز ہوسکتا ہے اس طرح ہم اپنی سمجھ میں ترمیم کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ شدید ترین خلل ذہنی میں مبتلا فرد کو اپنے اطراف کے ماحول،موسم کی کیفیت،افراد کی شناخت، رشتوں کی اہمیت کسی بھی احساس کا کوئی ادراک نہیں ہوتا لیکن اس کو ہر اس شئے سے خوف ہوتا ہے جس سے موت واقع ہوسکتی ہو اور ہر اس چیز سے ڈرتا ہے جس سے اسے کوئی جسمانی گزند پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہو ۔ ایسے شخص کی فہم یہاں زندہ ہے اس پر کسی بھی قسم کا اثر ممکن نہیں۔ خلل ذہنی میں مبتلا شخص کو بید سے قابو میں کیا جاتا ہے ۔

لطف ہائے کہ تمیزی آفت گرفت دوسری طرف صورت شناسی ہے ۔ یہاں فہم سے مراد بول چال کی زبان کو صرف سمجھنا ہے لیکن جب یہ اپنی تحریری صورت اختیار کرتی ہے تو اس کو پڑھنا ممکن نہیں اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ کسی خوبصورت مرد یا زن کے چہرے کو بد شکل رخ پوش سے ڈھانک دیا جائے تو رخ پوش کے پیچھے کون ہے اس کو ایک شناسا (اردوداں) ہی جان سکتا ہے لیکن وہ بھی اس کریہہ شکل (رومن رسم الخط) کو دیکھ کر کچھ ناگواری کی سی کیفیت کا اظہار کرے گا ۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں یا سمجھتے ہیں اس کا احاطہ اپنی تہذیب قریبی ماحول، سماجی روابط، عائلی رشتوں سے ہوگا اور انسان شناخت کے ان عوامل کا تعلق زبان ،لطیف و خوش ذائقہ ما کولات سے ہے ۔ عوامل کی ان دو خصوصیات میں زبان میں کرختگی اور ماکولات میں بدمزگی تہذیب پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔ ایسی اقوام جو اپنی زبان سے فرار حاصل کرلیتی ہیں وہ کسی دوسرے غیر مانوس اور ناپسندیدہ ماحول میں سانس لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں یہاں اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز اور ممیز کرنے کے لئے سخت کرب و ہیجان میں گرفتار ہوجاتے ہیں وہ نہ ہی نئی، جگہ ان کے ماحول تہذیب اور ماکولات کو اپناتے ہیں اور نہ ہی اپنی روایات اور زبان کو انہیں دینے کی جرائت کرسکتے ہیں۔ اپنی زبان سے فرار ختیار کرنے والی اقوام یا مختصر گروہ کی دوسری نسل اپنے اسلاف کی روایات اور تہذیب سے برگشتہ ہوجاتی ہے ۔ ایسی جگہوں کی ہم آسانی کے ساتھ نشاندہی کرسکتے ہیں جیسے لاطینی اور جنوبی امریکہ میں مقیم فلسطینی ،لبنانی ،سیر یائی،افریقی اور اب اس میں عربوں کی تیسری نسل کو بھی شال کیا جانے لگا ہے آج اپنی زبان تہذیب اور ماکولات سے بھی فرار حاصل کرنے لگے ہیں ۔ بر صغیر میں ہندوستان سے پاکستان فرار ہونے والے ایک عجیب کشمکش اور فکری انتشار کے ساتھ ساتھ فسوں و ملال میں گرفتار ہیں ۔

ان کی بول چال کی زبان سے ،غیر شائستہ کلمات کے اظہار سے ان کی اظہار خواری و فروتنی صاف ظاہر ہوتی ہے ۔ مثلا اب اردو کا کیا ہے ایک کوٹھے کی طوائف ہے مزہ ہر ایک لیتا ہے محبت کم ہی کرتے ہیں ان تبدیلیوں کو ہم کسی بھی طرح کی عادت تن آسانی یعنی ایدی پن نہیں کہہ سکتے کیونکہ تن آسانی انسانی کیفیت کا اظہار ہے اور یہ کیفیت مجموعی نہیں ہوسکتی ۔
کسی موضوع یا مسئلہ پر اظہار رائے و مباحث اپنے اطراف کے ماحول پر ہوتے ہیں بلکہ ہونا چاہئے ۔ اس وقت ہمارے ملک میں انتخابات کی گہما گہمی ہے اور ہمارے کہربائی ذرائع ابلاغ انتہائی ضروری ہونے کے باوجود یہاں اور کئی جگہ برطانوی زبان سے اجتناب کیا گیا ہے )افغانستان کے انتخابات کا چرچا کرنے لگیں کیا صحیح ہوگا ؟ اب رہی بات اردو تو کسی طرح بول چال میں زندہ ہے ۔ ہمارے ملک میں تین سو پچاس زبانیں اور بولیاں تسلیم کی گئی ہیں اور چودہ زبانوں کو قانونی موقف دیا گیا ہے ۔ ان تمام زبانوں میں زیادہ بولیاں ایک جیسی ہیں ان تمام زبانوں کی بولیوں کو اردو کہہ کر مطمئن ہوجایئے کہ اردو بول چال میں تو زندہ ہے ۔ جب یہ زبانیں تحریری شکل میں آتی ہیں تو جس کو سن کرہم اردو کہہ رہے تھے یہاں تو کہیں بھی نہیں ہے ۔ اپنی زبان کو برطانوی زبان میں تبدیلکیوں کررہے ہیں کسی بھی زبان میں ایسا ہی کرلیجئے اردو بولنے والے چین میں بھی ہیں تو چینی زبان کے قالب میں ڈھال لیجئے ۔ زبان کا معاملہ صرف اہل زبان سے ہی ہے ۔ اگر ہم کسی دوسرے کو اپنی زبان اس کی زبان میں پیش کریں تو اس نا واقف زبان کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ یہی حال اردو بول چال والوں کا بھی ہے ۔ اگر ہم کسی نوجوان کو برطانوی رسم الخط میں لکھ کردیں کہ میاں یہ کیا ہے پڑھو تو وہ چلا تھا جانب منزل لیکن غرق دریا ہوا کو گر کے دریا ہوا ، ہی پڑھے گا ۔ پاکستان میں اردو کی بات کرنا ہی بربادی وقت ہے گوکہ وہاں اردو کومی (قومی) زبان ہے لیکن ملک کی سرکاری زبان نہیں بن سکی ۔ پنجاب میں پنجابی،سندھ میں سندھی ،بلوچ میں بلوچی اور پختون میں پشتو۔ وہاں اردو صرف مہاجروں کی زبان ہے جس کی قواعد بگڑتی جارہی ہے مشکل اردو الفاظ کی جگہ برطانوی زبان لے رہی ہے ۔ مجھے اختلاف ہے کہ اردو ترقی پذیر ہے گذشتہ دس سالوں میں اردو تیزی سے تنزلی کی طرف رواں ہے ۔ آلہ حساب کی ایجاد کے بعد نقاط شناسی نے اسے اور نقصان پہنچایا ہے ۔ آج دنیا کی تمام زبانیں کہربائی آلہ حساب کے پردہ پر جلوہ افروز ہیں سوائے اردو کے ۔ میں بات کررہا ہوں منظومہ عوامل کی ۔ اگر یہ سب کچھ ہونے کا ثابت ہے تو بھی ہم بات کررہے ہیں اردو نوشت و خواند کی اردو کے سیکھنے اور سکھانے کی ۔ اردو زبان اپنی تحریر کی خوبصورتی سے مربوط ہے ۔ یہ تہذیب اور شائستگی کا درس دیتی ہے ۔ یہ کوئی خوشی کی بات نہیں کہ اردو برطانوی زبان سے مربوط ہوچکی یہاں اردو زبان برطانوی زبان کے رسم الخط کو اپنا رہی ہے ۔ آلہ حساب اور ھاتف متحرک کے ذریعہ پیام رسانی کو اردو کی ترقی سے مربوط کرنا چہ معنی دارد!! یہاں بھی دیونا گری کی طرح اردو برطانوی لباس زیب تن کررہی ہے کچھ کچھ فہم کا اظہار ہورہا ہے لیکن صورت شناسی سے معذور ہے ۔
آپ یا گھر میں کوئی بھی اردو سے واقف ہو تو خود ایک تحریک بن کر اپنے بچوں کو اردو ضرور سکھائیں اس طرح اپنے بچوں کے دلوں میں دھڑکن بن کر زندہ رہیں گے ۔

شیخ سعید کہتے ہیں
ز عہد پدر یادم آید ہمیں
کہ باران رحمت بروئے ہر دمیں
کہ در خریدیم لوح و دفتر خرید
یعنی ہمیشہ مجھے اپنے باپ کا وہ زمانہ یاد آتا ہے ۔ اللہ ان پر ہمیشہ رحمتوں کی بارش کرے ۔ انہوں نے بچپن میں مجھے تختی اور کتاب خرید کردی ۔