فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستیں مسترد ،نواز شریف نے فیصلہ کا خیرمقدم کیا

اسلام آباد۔ 5 اگست (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلہ میں متنازعہ فوجی عدالت کے قیام کے خلاف داخل کردہ ایک درخواست کو مسترد کردیا تاکہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی عاجلانہ سماعت ہوسکے اور عدالت کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو۔ اپیکس کورٹ نے 21 ویں کابینی ترمیم کے خلاف داخل کردہ مختلف درخواستوں کو مسترد کردیا۔ ترمیم پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی تھی جس کے بعد ہی فوجی عدالت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ 17 رکنی سپریم کورٹ بینچ جس کی قیادت چیف جسٹس سفیرالملک نے کی، نے پارلیمنٹ کے فیصلہ کو برقرار رکھا۔ ترمیم کے خلاف 6 ووٹ دیئے گئے جبکہ تائید میں 11 ووٹ پڑے۔ دریں اثناء پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے چہارشنبہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے 18ویں اور 21ویں آئینی ترامیم کو درست تسلیم کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کو جائز قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ غیر معمولی حالات کیلئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔

درخوست گزاروں کا اس مقدمے میں موقف تھا کہ فوجی عدالتیں عام شہریوں کے خلاف سماعت کرنے کا حق نہیں رکھتیں، لہٰذا انھیں اس سے روکا جائے۔ انھوں نے اس فیصلے کے بعد کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے۔واضح رہے کہ فوجی عدالتوں نے شدت پسندی کے مقدمات میں چھ افراد کو موت کی سزا سنائی تھی جسے سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران ان سزاوں پر عمل درآمد روک دیا تھا، اب ان پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔17 رکنی بینچ نے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری سے متعلق اٹھارہویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستیں بھی مسترد کر دیں، اس فیصلے میں 14 ججوں نے اس کے حق میں اور تین نے اس سے اختلاف کیا،تاہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور جسٹس دوست محمد نے ان درخواستوں پر مختصر فیصلہ سنایا۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ملکی آئین سب سے مقدم ہے، پارلیمنٹ مقدم نہیں ہے۔ اْنھوں نے کہا کہ اگرچہ پارلیمنٹ عوام کے منتخب نمائندہ فورم ہے لیکن اس کا وجود بھی آئین کے ہی مرہون منت ہے۔