فوجداری مقدمات میں ملوث ارکان اسمبلی و پارلیمان کی اب خیر نہیں

حیدرآباد ۔ 6 ۔ نومبر : ( سیاست نیوز ) : عدالت عظمیٰ نے حال ہی میں مرکزی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ ان ارکان پارلیمان اور ارکان اسمبلی کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کریں جن کے خلاف فوجداری مقدمات زیر دوراں ہیں ۔ سپریم کورٹ کی ان ہدایات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ دونوں تلگو ریاستوں آندھرا پردیش اور تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے تقریبا 100 ارکان اسمبلی اور 9 ارکان پارلیمان کی خیر نہیں ، ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا ۔ تلنگانہ کے جن ارکان اسمبلی کے خلاف فوجداری مقدمات چل رہے ہیں ۔ ان میں ای رویندر ریڈی ( ٹی آر ایس ) کے خلاف 4 ، پی مدھوکر ( ٹی آر ایس ) کے خلاف 5 ، گنگولا کملاکر ( ٹی آر ایس ) کے خلاف 7 ، راجہ سنگھ لودھا ( بی جے پی ) کے خلاف 13 ، پاشاہ قادری ( مجلس ) کے خلاف 6 ، اکبر الدین اویسی ( مجلس ) کے خلاف 8 ، کونڈا سریکھا ( ٹی آر ایس ) کے خلاف 6 مقدمات زیر دوران ہیں تاہم بتایا جاتا ہے کہ مقدمات کی سنوائی کا عمل سست روی کا شکار ہے ۔ عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے مطابق فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم ہوتی ہیں تو ان ارکان اسمبلی و ارکان پارلیمان کو پریشانیوں میں مبتلا ہونا پڑسکتا ہے ۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پولیس کے لیے بھی یہ درد سر بن سکتے ہیں کیوں کہ اکثر مقدمات زیر دوراں ہیں یا التواء میں پڑے ہیں ۔ جب کہ کچھ کی تحقیقات جاری ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمات زیر التواء ہیں کیوں کہ ملزمین قانونی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی سماعت میں تاخیر پیدا کررہے ہیں ۔ جب کہ بعض مقدمات میں گواہ اور پولیس پر مبینہ طور پر اثر انداز ہونے کی بھی اطلاعات ہیں ۔ اگر تمام مقدمات کی سماعت میں تیزی پیدا کی جاتی ہے تو یہ محکمہ پولیس کے لیے ایک مشکل کام ہوگا ۔ بتایا جاتا ہے کہ عوامی نمائندوں کے خلاف زیادہ تر مقدمات کا انتخابات کے دوران اندراج عمل میں آیا ۔ پولیس عہدیداروں کے مطابق انتخابات کے دوران اسی طرح کے مقدمات سیاسی حریفوں کی شکایات پر درج کی جاتی ہیں اور یہ عام رجحان ہے ۔ ذرائع کا ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار کے حوالے سے کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات میں ایک مقدمہ درج کر کے چارج شیٹ پیش کی جاتی ہے اور جب معاملہ عدالت تک پہنچ جاتا ہے تو ملزمین گواہوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مقدمہ کا رخ موڑ دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ملزمین قانونی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو استعمال کرتے ہوئے ضمانت حاصل کرلیتے ہیں یا عدالت میں حاضر نہیں ہوتے ۔ اس ضمن میں وہ عدالت میں مختلف وجوہات پیش کرتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ ملزمین مقدمہ کی سماعت میں تاخیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور مقدمہ کو کمزور کردیتے ہیں ۔ اگر وہ تحت کی عدالت میں کچھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو پھر ہائی کورٹ جاتے ہیں اور ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلیتے ہیں یا تحت کی عدالت کی کارروائی پر حکم التواء حاصل کرلیتے ہیں ۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اینٹی کرپشن بیورو اور سی بی آئی عدالتوں کے خطوط پر فاسٹ ٹریک عدالتوں کے ذریعہ عوامی نمائندوں کے خلاف مقدمات کی سماعت اس مسئلہ کا حل ہے ۔ جہاں تک سپریم کورٹ کی ہدایات کا سوال ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ہر ریاست میں فوجداری مقدمات کا سامنا کررہے سیاستدانوں ( ایم پیز ، ایم ایل ایز ) کے مقدمات کی سماعت کے لیے ایک فاسٹ ٹریک عدالت قائم کرتے ہوئے مقدمات کی یکسوئی کے لیے عدالت کو ایک مہلت دی جانی چاہئے ۔۔