l خواجہ اجمیریؒ کی خانقاہ سے شروع ہوئی قوالی قومی یکجہتی کا بہترین ذریعہ
l مایہ ناز قوال کامل اجمیری سے بات چیت
حیدرآباد ۔ /21 جولائی (نمائندہ خصوصی) فن قوالی سارے جنوبی ایشیاء بالخصوص ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش میں کافی مقبول ہے ۔ قوالی پاکستان کے صوبہ پنجاب اور علاقہ سندھ کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بالخصوص حیدرآباد ، اجمیر اور دہلی میں کافی شوق سے سنی جاتی ہے ۔ پاکستان کے صابری برادران عزیز میاں اور نصرت فتح علی خاں نے جہاں فن قوالی میں زبردست شہرت کمائی وہیں حیدرآباد کے عزیز احمد خاں وارثی نے بھی بہت نام کمایا ۔ ہمارے ملک میں اگرچہ بے شمار قوال ہیں لیکن ایسے بہت کم قوال ہیں جو قوالی سناتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک واعظ کی طرح وعظ کررہے ہوں ایسے ہی قوالوں میں کامل اجمیری (ایس اے رحیم) بھی ہیں جو 12 سال کی عمر سے فن قوالی کا مظاہرہ کررہے ہیں وہ اپنے دور کے سید عبدالرحمن واعظ کے فرزند اور حضرت سید علی نجف واعظ قوال کے پوتے ہیں ۔ایک خصوصی ملاقات میں کامل اجمیری نے بتایا کہ ان کے دادا سے صوفیانہ کلام سننے کے بعد حضرت خواجہ حسن نظامیؒ اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے کہا کہ ’’ارے بھائی یہ قوال نہیں یہ تو واعظ ہے‘‘ کامل اجمیری نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ انہوں نے کلاسیکی فن کی تعلیم استاد مشتاق حسین خاں صاحب (گاپور ساسہوان گھرانہ) استاد اشتیاق حسین خانصاحب ، استاد غلام حسین خانصاحب ، استاد غلام تقی خانصاحب ، استاد فرید الدین خانصاحب اور استاد علاء الدین خانصاحب سے حاصل کی ۔ اگرچہ وہ مرکز وزارت صحت میں ملازم تھے لیکن خود کو فن قوالی سے جوڑے رکھا ۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ تقریباً 12 زبانوں بشمول عربی ، فارسی ، اردو ، ہندی ، برج ، بھوجپوری ، چھتیس گڑھ ، پنجابی ، انگریزی ، بنگلہ وغیرہ میں قوالی گاتے ہیں ۔ اگرچہ ان کی پیدائش حیدرآباد میں ہوئی لیکن تعلیم راجستھان میں ہوئی ۔ انہوں نے بی اے کیا اور پھر وزارت صحت میں ملازمت اختیار کرلی ۔ وہ سولو غزلیات میں بھی مہارت رکھتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کامل اجمیری گزشتہ 35 برسوں سے ریڈیو اور ٹی وی پر بھی پروگرامس پیش کررہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فن قوالی میں تکرار اچھی بات ہے کیونکہ خانقاہی نظام میںاگر کسی کو کوئی مصرعہ پسند آجائے تو وہ حالت کشف میں آجاتا ہے ۔ ایسے میں قوال کو چاہئیے کہ وہ اُس مصرعہ کی تکرار کرتا رہے ۔ 71 سالہ کامل اجمیری کے مطابق قوالی کی شروعات سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی خانقاہ سے ہوئی اور پھر اس فن کو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی خانقاہ سے عروج حاصل ہوا ۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے چہیتے مرید حضرت امیر خسروؒ نے اس فن کو بہت فروغ دیا ۔ اس طرح 700 سال سے فن قوالی سے عام و خاص محظوظ ہورہے ہیں ۔ فن قوالی میں ، قول ، قلیانہ ، نقش ، گل ہوا وغیرہ کی ایجادات حضرت امیر خسرو نے ہی کی جبکہ سِتار ، طبلہ ، نال ، ڈھولک جیسے ساز بھی امیر خسروؒ کی ہی ایجادات ہیں ۔ قوالوں اور فن قوالی کے بارے میں کامل اجمیری کا کہنا ہے کہ اچھا قوال وہ ہے جو نماز کا پابند رہے باوضو رہتا ہو اور اچھے کلام کا انتخاب کرتا ہو اگر کسی قوال میں یہ خوبیاں پائی جائیں تو اس کے کلام (قوالی میں) تاثیر پیدا ہوتی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ فن قوالی کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جانی چاہئیے ۔ اس ضمن میں ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کا حوالہ دیتے ہوئے کامل اجمیری نے بتایا کہ ایڈیٹر سیاست فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور حکومت کو ان کی پذیرائی کی جانب توجہ بھی دلاتے ہیں ۔