فلسطین ،بین الاقوامی جنگی جرائم کی عدالت میں شامل

دی ہیگ۔ یکم ؍ اپریل (سیاست ڈاٹ کام) فلسطین بالآخر آج جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں رسمی طور پر شامل ہوگیا۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کی بنیاد پر فلسطینی یہ امید کرسکتے ہیں کہ اسرائیل کے مبینہ جنگی جرائم پر اس ملک کے خلاف قانونی کارروائی کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں واقع جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت کی ایک بند کمرہ تقریب میں یہ انضمام عمل میں آیا جس سے 90 دن قبل فلسطین اس عدالت کے اسالسی رومی ضابطہ قانون میں شامل ہوا تھا۔ فلسطین اب بین الاقوامی جنگی جرائم کا 123 واں رکن ملک بن گیا ہے۔ فلسطینیوں سے اسرائیل سے بھی اس بین الاقوامی عدالت میں شامل ہونے کی درخواست کی ہے جو نسل کشی، قتل عام، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق مقدمات چلانے کیلئے 2002ء میں قائم کی گئی تھی۔ فلسطینی جو اسرائیل کے ساتھ گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری مذاکرات میں ناکامی اور مستقبل قریب میں علحدہ مملکت حاصل نہ ہونے کے امکان کے بعد کافی بیزار و برہم ہیں، کم سے کم جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت کے بشمول مختلف بین الاقوامی اداروں میں اپنی شمولیت کیلئے سرگرم و انتھک مہم چلا رہے تھے۔

فلسطینی وزیرخارجہ ریاض مالکی نے اس تقریب میں علامتی قانون روم کی ایک نقل حاصل کرنے کے بعد کہا کہ ’’فلسطینی انتقام نہیں انصاف چاہتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو چاہئے کہ وہ بھی جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت کا رکن بن جائے‘‘۔ فلسطینی اتھاریٹی کے وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ ’’اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسرائیل کو اگر ہمارے خلاف کوئی شکایت ہے تو انہیں اس عدالت میں شامل ہونا چاہئے اور ہمارے خلاف اپنا مدعا پیش کرنا چاہئے‘‘۔ جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت کے اعلیٰ استغاثہ فاٹو بین سوڈا نے گذشتہ سال غزہ میں ہوئی لڑائی کے دوران تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ فلسطینی پہلے ہی اس عدالت میں دستاویزات پیش کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں میں جون 2014ء سے پیش آئے جنگی جرائم کے مختلف واقعات کی تحقیقات کی اجازت دی ہے۔ گذشتہ سال جولائی اور اگست کے دوران اسرائیل اور فلسطین کے درمیان 50 دن کے تصادم کے نتیجہ میں کم سے کم 2,200 فلسطینی اور 73 اسرائیلی ہلائے ہوگئے تھے

لیکن غزہ میں اسرائیل کے مبینہ جنگی جرائم کی کسی بھی تحقیقات میں اسرائیلی شہری علاقوں پر حماس عسکریت پسندوں کے راکٹ اور مورٹار حملوں کے بارے میں چھان بین بھی شامل رہے گی۔ اسرائیل نے اگرچہ اس عالمی ادارہ میں شمولیت حاصل نہیں کی ہے اس کے باوجود انتہائی سنگین جرائم سے متعلق مستقل عدالت فلسطینی علاقوں پر کئے گئے جنگی جرائم کے بارے میں اسرائیل کے خلاف استغاثہ کی کارروائی کرسکتی ہے۔ اس عدالت کو مشتبہ اسرائیلیوں کی گرفتاریوں کیلئے بھی سنگین چیلنج کا سامنا رہے گا کیونکہ اس کی اپنی پولیس فورسس نہیں ہے اور بالعموم وہ اپنے رکن ممالک کے تعاون پر انحصار کرتی ہے۔ فلسطینی گذشتہ کئی دہائیوں سے اپنے علاقوں سے اسرائیلی قبضہ کے خاتمہ یا علحدہ مملکت کے قیام کی انتھک جدوجہد میں مصروف ہیں۔ امریکی انتظامیہ میں بھی فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل اور فلسطین پر مبنی دو ریاستیں قائم کرنے اور بیت المقدس کو دارالحکومت بنانے کی حمایت کی ہے لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو نے دو قومی نظریہ کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہیکہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کی کسی بھی تجویز کو قبول نہیں کریں گے۔