یروشلم: پیر کے روز 69ویں ’نکابا‘ تقریب کے موقع پر فلسطینیوں نے ریالیوں کا انعقاد عمل میں لایا‘ اسی روز اسرائیل نے 750,000فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کا اعلان کیاتھا۔فلسطینیوں نے غزہ پٹی‘ ویسٹ بینک اور اس کے علاوہ اسرائیل میں موم بتی مارچ بھی کیا۔
مذکورہ نکابا’ ت تباہی کا دن‘500سے زائد گاؤں اور شہروں کو فورسس نے منہدم کرتے ہوئے لاکھوں کو سڑکوں پر زندگی بسر کرنے کے لئے مجبور کردیاتھا۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ’نکابا قانون‘ کے تحت اسرائیل فینانس منسٹر اس کے اتھاریٹی جو اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنے والوں کے خلاف دوبارہ معاشی امداد کرنے والے اداروں سے درخواست کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس روز یوم آزادی منانے والوں کو بھی معاشی امداد سے محروم کردیا جاتا ہے۔پیر روز منعقدہ ریالیوں میں ان 1500سیاسی فلسطینی قیدیوں کی جاری بھوک ہڑتال کے29ویں دن کو بھی شامل گیا ۔
مذکورہ قیدیوں کی بچوں کی بھی ویسٹ بینک میں تقاریر متوقع تھی۔بھوک ہڑتال پر بیٹھے مروان بارگہوٹی جنھوں نے اپنا 13کیلو وزن گنوادیا ہے نے زوردیا کہ فلسطینیوں کو چاہئے کہ یوم نکابا کے موقع پر سیول نافرمانی کریں۔ بھوک ہڑتال کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں جیل میں بہتر سہولتیں اور اپنے گھر والوں سے بات کرنے کے لئے ٹیلی فون سروسیس بھی مہیا کریں۔
راملاہ میں نکابا احتجاجی محمد ضیادہ جو کہ بھوک ہڑتال کررہے سیاسی قیدی ماجد ضیادہ کے والد ہیں نے کہاکہ’ ’ میرا بیٹا اور دیگر سیاسی قیدی آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ہم دوسروں کی طرح انسان ہیں‘ہماری بھی ماں ہے‘ ہمارے آنکھوں میں بھی رنگ ہے‘ ہم محبت کرتے ہیں ۔
مگر دوسروں کی طرح ہمارا کوئی وطن نہیں ہے‘‘۔ایک احتجاجی ایرکاٹ نے کہاکہ ’’ہماری قوم 69واںیوم نکابا منارہی ہے‘ ہمارا ملک تباہ کردیا گیا‘ منظم طریقے سے ہمارے حقوق سلب کئے جارہے ہیں‘‘ انہوں نے 1948میں فلسطین میں جبری طور پر داخلے کے لئے اسرائیل سے معذرت چاہنے کا بھی مطالبہ کیا۔لاکھوں کی تعداد میں 1948سے فلسطینی خانہ بدوشوں کی طرح فلسطین کے باہر فوجی کیمپوں میں زندگی گذار رہے ہیں۔
کئی نسلیں بناء اپنے وطن واپسی کے حق سے محروم کردئے گئے ہیں۔ اسرائیل یواین کے 194قرارداد پر روک لگادی ہے جس کے تحت فلسطینی اپنے گھر واپس آسکتے ہیں مگر انہیں واپسی سے روکدیاگیا ہے۔راملاہ میں احتجاج کے دوران فلسطینی صحافی ایلیا گوربیا نے کہاکہ ’’ میرے لئے ‘ میں نے قبضے کے دوران جنم لیا‘ بڑے ہورہے ہیں اور جی رہے ہیں‘‘۔