فلسطینی مسئلہ پر نتن یاہو سے اختلافات کا اعتراف

واشنگٹن۔ 25 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) صدر امریکہ بارک اوباما کے وزیراعظم اسرائیل نتن یاہو کے ساتھ ان کے تعلقات بالکل اسی طرح کے ہیں جس طرح دو بزنس کرنے والے تاجرین کے درمیان ہوتے ہیں البتہ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ فلسطینی ریاست کے مسئلہ کی یکسوئی کے لئے دونوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ صدر افغانستان اشرف غنی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ جس طرح دو تاجرین کے درمیان مراسم ہوتے ہیں۔ نتن یاہو کے ساتھ ان کے مراسم میں بالکل اسی نوعیت کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر دیگر اہم قائدین کے مقابلے انہوں نے (اوباما) نتن یاہو سے کئی بار ملاقات کی ہے اور ان سے فون پر بھی بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ وہ اپنے ملک کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ بھی اس طرح جیسے ان کی سوچ انہیں اجازت دے اور بالکل اسی طرح میں بھی (اوباما) اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ اوباما نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کے تحفظ، فلسطینیوں کے دیرینہ جذبوں کی تکمیل اور خطے میں استحکام کے لئے دو ملکی فارمولہ سب سے بہتر متبادل ہے

جبکہ نتن یاہو کا طرز فکر بالکل علیحدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر نغمہ سرائی کریں بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کی یکسوئی کے بارے میں ہمیں سوچنا ہے کہ پالیسی سے متعلق ہمارے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو کس طرح دور کیا جائے۔ وائیٹ ہاؤز میں پریس کانفرنس کے دوران رپورٹر کس کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پالیسی سے متعلق اختلافات دونوں ہی ممالک کے لئے سنگین نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔ صدر اوباما نے نتن یاہو کے اس بیان کا بھی سخت نوٹ لیا ہے جہاں انہوں نے (یاہو) کہا تھا کہ جب تک وہ (یاہو) اقتدار پر فائز رہیں گے ۔ مشرق وسطیٰ کے مسئلہ پر کوئی حل سامنے نہیں آئے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل میں ووٹرس کی اکثریت نے بھی شاید نتن یاہو کے اس بیان پر انہیں ووٹ دے کر اقتدار سونپا ہے۔ اوباما نے کہا کہ پالیسی اختلافات کے باوجود امریکہ اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی، ملٹری اور انٹلیجنس محاذ پر اپنا تعاون برقرار رکھے گا۔