یروشلم 27 مئی (سیاست ڈاٹ کام) اسلامی گروپ حماس نے اسرائیل کے ساتھ 2014 ء کی جنگ کو دراصل اپنے حریف فلسطینیوں کے ساتھ پرانی مخاصمت کی تکمیل کے لئے استعمال کیا اور اس طرح جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے 23 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آج یہ بات بتائی۔ غزہ میں اُس وقت عملاً حماس کی حکومت تھی اور ایسے کئی فلسطینی تھے جن کا یا تو اغواء کیا گیا یا اُنھیں اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس وقت غزہ میں اسرائیلی افواج فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھا رہی تھیں اُس وقت حماس کی فوجوں نے بھی پرانا حساب چکانے کے لئے اُس موقع کو غنیمت جانا اور اس طرح غیر قانونی طور پر متعدد ہلاکتوں کے علاوہ دیگر جرائم کے مرتکب بھی ہوئے۔ ایمنسٹی کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ڈائرکٹر فلپ لوتھر نے یہ بات بتائی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ گزشتہ سال اسرائیل کے ساتھ ہوئی جنگ میں 2200 فلسطینی حق بحق ہوئے تھے جس کا سلسلہ 50 دنوں تک جاری رہا جبکہ اسرائیلی ہلاکتوں کی تعداد صرف 75 بتائی گئی ہے۔ اسرائیل حماس کے ساتھ آمادہ جنگ اس لئے ہوا کیونکہ وہ سرحد پار سے راکٹ اور مورٹار فائرنگ کی مکمل مسدودی کا خواہاں تھا۔
جاریہ سال مارچ میں تیار کی گئی ایمنسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ عسکریت پسندوں کی جانب سے راکٹ فائر کئے جانے کے واقعہ میں اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت فلسطینی شہریوں کی ہلاکت سے کم تھی۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حماس نے فلسطینیوں کے خلاف جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا اُس کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں تھا اور کسی بھی فرد واحد سے باز پرس تک نہیں کی گئی۔ فلپ لوتھر نے اپنی رپورٹ میں مزید کہاکہ حماس نے ایک ایسے بے یار و مددگار قوم کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا جن کے پاس کوئی فوجی طاقت، کوئی عالمی تائید اور کوئی عصری ہتھیار نہیں تھے۔ لہذا اب فلسطینی بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ذریعہ اُن اسرائیلیوں کے خلاف مقدمات دائر کررہے ہیں جنھوں نے گزشتہ سال غزہ کی جنگ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اور پرانی مخاصمت کو حساب بے باق کرنے کے لئے معصوم، نہتے اور بے قصور فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ جنگی جرائم چاہے کسی بھی ملک کے لوگ انجام دیں وہ قابل گرفت ہونے چاہئے۔ امریکہ عرصہ دراز سے سری لنکا سے بھی یہی مطالبہ کرتا آرہا ہے کہ وہاں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔ رپورٹس بنتی رہتی ہیں اور برفدان کی نذر ہوتی رہتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کے لئے عالمی سطح پر ایسی قانون سازی کی جائے جس سے اُنھیں قابل گرفت بنایا جاسکے۔