فلسطینیوں کو مستقل راحت ضروری

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
فلسطینیوں کو مستقل راحت ضروری
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کو حماس کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے تو عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف احتجاج خاص کر اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کی بھی ایک اصل وجہ ہے ۔ عالم اسلام کے ساتھ ساتھ یوروپ اور دیگر اقوام نے بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی برہمی ظاہر کرتے ہوئے اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کیا تھا ۔ یہودی مملکت کو جب معاشی ضرب کا اندازہ ہونے لگا تو حماس کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لئے مجبور ہونا پڑا ۔ جنگ بندی معاہدہ نے فلسطینیوں کے چہروں پر خوشی کی لہر پیدا کردی ان کی خوشیوں میں ساری دنیا کے وہ تمام ہمدردیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے اسرائیل کی معیشت کو کمزور کرنے اور جارحیت سے باز رکھنے کیلئے اسرائیلی اشیاء کی خریداری کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ہندوستان میں بھی عوام الناس کی کثیر تعداد نے فلسطینیوں سے اظہار یگانگت کیا۔ حیدرآباد میں تمام انسانیت دوست شہریوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرکے اشیاء کے بائیکاٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا عالمی سطح پر سرگرم تمام انسان مل کر کسی دشمن جارحیت پسند طاقت کو سبق سکھانے کا عہدہ کرلیں کو یقیناً اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں مدد ملے گی۔ اسرئیل نے حماس کو کمزور یا برباد کرنے کی غرض سے 8 جولائی سے غزہ پر بمباری شروع کی تھی ۔ 50 روزہ جارحیت کے دوران ہزاروں فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں ۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو اپنی بمباری کا شکار بناکر ان کے جان و مال کو تباہ کردیا تھا۔ اس جنگ بندی کو یقینی بنایا جاتا ہے تو مشرق وسطی میں امن کے قیام کو مضبوطی حاصل ہوگی ۔ مصر نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اس مذاکرات کیلئے کامیاب ثالثی کا رول ادا کیا ہے ۔ علاقائی امن مذاکرات کو وسیع تر بنیاد پر عالم عرب اور عالم انسانیت کیلئے اہم سمجھا جارہا ہے ۔ عرب دنیا میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ حماس نے یہ تاریخی کامیابی حاصل کی ہے ۔ اسرائیل کو مجبور کردیا گیا کہ وہ عربوں کا احترام کرے لیکن یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ حماس کو عالم عرب میں ایک بڑی مخالفت اسرئیل مزاحمتی گروپ کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے لیکن عرب حکمرانوں کیلئے حماس کی کامیابی تشویش کا حصہ بھی ہوسکتی ہے کیوں کہ کئی عرب حکمراں حماس کو پسند نہیں کرتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حماس نے اب تک اسرائیل کا 3 مرتبہ زبردست مقابلہ کیا ہے ۔ اس کو عوام کی زبردست حمایت حاصل ہے ۔ مسلح جدوجہد نے ہی حماس کو دشمن طاقت کے مد مقابل ایک کامیاب گروپ کی حیثیت حاصل ہوئی ہے ۔ اسرائیل کی جارحیت پر خاموشی اختیار کرنے والے ملکوں کو بھی غورکرنے کا وقت آگیا ہے کہ مشرق وسطی میں اس کی جارحانہ کارروائیوں سے جو تباہی آئی ہے اس کی تلافی کس طرح کی جائے قطر نے غزہ کی تعمیر نو کی پیشکش کی ہے اس کے علاوہ دیگر ملک بھی غزہ کی امداد کیلئے آگے آرہے ہیں ۔ اسرائیل کو عالمی سطح پر کوئی سبق یا سزا نہیں دی گئی تو وہ آئندہ اپنی جارحانہ و بربریت انگیز کارروائیوں کا احیا کرسکتا ہے اس لئے یوروپی یونین کو یہودی ملک پر تحدیدات نافد کرنے میں تاخیرنہیں کرنی چاہئے ۔ جنگی جرائم کے مرتکب اور اسرائیل کو معصوم فلسطینیوں کے قتل کا عالمی عدالت میں مقدمہ چلانے سے انصاف کا تقاضہ پورا ہوگا گذشتہ 8 سال سے اسرائیل نے مشرق وسطی میں خاص کر غزہ پر اندھا دھند بمباری کی ہے جس کی بے رحمی پر ساری انسانیت تڑپ اٹھی ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر مسلسل احتجاج اور مظاہرہوں کے باوجود اسرائیل پر شکنجہ نہیںکسا جاسکتا تھا ۔ اسرائیل نے شہری آبادیوں کو جس بے دردی سے تباہ کیا ہے اس کا حساب کتاب اسی سے حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو آئندہ وہ ناعاقبت اندیشانہ کارروائیوں سے باز آئے گا غزہ کی آبادی پر ہر قسم کی جبری پابندیاں ہٹا لینے اور سرحدیں کھولدینے کے معاہدہ کے بعد اسرائیل کو اپنے معاہدہ سے منحرف ہونے کی ہر گز اجازت نہ دینا عالمی قوتوں کی ذمہ داری ہوگی ۔ بعض مسلم ملکوں نے اسرائیلی جارحیت پر جس چشم پوشی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا تھا انہیں بھی اب انسانی سطح پر اٹھ کر حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس طرح ساری دنیا نے انسانی جذبہ سے سرشار ہوکر اسرائیل کی معیشت کوکمزور کرنے اس کی اشیاء کا بائیکاٹ کیا تھا ۔ عرب سرزمین سے اسرائیل کے نا جائز قبضہ برخاست کرانے، فلسطینیوں کیلئے کھڑی کردہ دیوار گرانے کیلئے بھی عالمی سطح پر دباو ڈالدیا جائے تو فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے میں مدد ملے گی۔
’’جن دھن یوجنا‘‘
ملک کی تقریباً 40 فیصد آبادی کو بینکوں کے ذریعہ مالیاتی استحکام دینے کیلئے شروع کردہ وزیراعظم نریندر مودی کے ’’جن دھن یوجنا‘‘ پروگرام کے ذریعہ غربت کا خاتمہ کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے ۔ جن دھن یوجنا کا مقصد ہر ایک ہندوستانی خاندان کو بینک اکاونٹ فراہم کرنا ہے ۔ اس پراجکٹ کے پہلے دن ہی 1.5 کروڑ بینک اوکانٹس کھولے جانے کا ادعا کیا جارہا ہے جس کو ایک ورلڈ ریکارڈ بھی کہا جارہا ہے ۔ اس پروگرام کا سب سے بڑا اہم مقصد نئے سال جنوری 2015 سے قبل ملک بھر میں 7.5 کروڑ خاندانوں کو بینک اکاونٹس فراہم کئے جائیں گے یعنی 7.5 کروڑ خاندان کا مطلب فی خاندان 5 نفوس پر مشتمل ہوگا ۔ اس اعتبار سے مودی حکومت 37.5 کروڑ افراد کو بینک اکاونٹ فراہم کرے گی ۔ سوال یہ ہے کہ آیا ملک کے غریب عوام میں سے ایسے کتنے افراد ہیں جو بینک اکاونٹس سے استفادہ کرتے ہیں۔ ایک بہترین حکومت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ حکومت کرے لیکن مودی حکومت نے ملک بھر میں غریبوں کے مسائل یا ان کی غریبی کو دور کرنے کیلئے بینک اکاونٹس کا جال پھیلانے کا منصوبہ بنایا ہے وہ نا قابل فہم معلوم ہوتا ہے ۔ دنیا بھر میں ایسا کہیں بھی نہیں دیکھا گیا کہ بینک اکاونٹس کے لزوم کے ذریعہ غریبی کو دور کیا گیا ہو یا حکومت کی اسکیمات بینکوں کے ذریعہ مستحق افراد تک پہونچی ہوں ۔ بلا شبہ اس طرح کی اسکیم کا مقصد بڑے بزنس گھرانوں کی چال کو وسعت دینا ہے کیوں کہ ہندوستان کی کثیر آبادی میں 68 فیصد افراد ایسے ہیں جن کی بینک تک رسائی حاصل نہیں ہے مگر نریندر مودی کی حکومت اس کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ ملک کے ہر خاندان کے پاس اس کا نیا بینک اکاونٹ ہونا کہ حکومت ان اکاونٹ ہولڈرس کے کھاتے میں اسکیمات کی رقم جمع کرواکر درمیانی آدمی یا دلالوں کے چلن کو برخاست کیا جاسکے جہاں تک بینک کاری نظام اور روز مرہ کے کاموں کا سوال ہے یہ بینک ملازمین سے لے کر اکاونٹس ہولڈرس کے لئے دن بہ دن تکلیف دہ ہورہا ہے بینکوں میں اسٹاف کی کمی، ناکافی انفراسٹرکچر کی شکایت کے درمیان ملک کے درو دراز علاقوں تک بینک خدمات کو کس طرح موثر بنایا جائے گا یہ بھی غیر واضح ہے ۔ وزیر اعظم کی یہ یوجنا بھی حکومت کے حق میں سستی شہرت کا بھونڈہ ذریعہ ہے ۔ رشوت سے پاک سسٹم کے نام پر بینکوں اور بینک اکاونٹس کا ایک نیا اسکام ہونے جارہا ہے ۔