مولانا محمد فرید الدین نقشبندی قادری
اللہ تعالی ہر زمانے میں اپنی رحمت کسی نہ کسی صورت میں بھیجتا رہا اور اپنے بندوں کی مدد فرماتا رہا۔ ہم گنہگاروں پر رب العزت کا ہمیشہ سے کرم رہا ہے، لیکن پھر بھی بندے خدا کے ناشکر بنے رہے اور انھیں شکر ادا کرنے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگنے کا سلیقہ بھی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ جس طرح پروردگار عالم کی فرماں برداری کرنا چاہئے، بندے اس سے عاجز ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’علم والوں سے پوچھو اگر تمھیں علم نہیں‘‘۔ (سورۃ النحل)
اللہ تعالی کا حکم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت علماء کرام سے بھی حاصل کرو اور جو تم علم نہیں رکھتے اس کا علم علماء سے رجوع ہوکر حاصل کرو۔ اللہ اور رسول کے بعد ان (علماء) کا حکم ماننے کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ’’اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا اور تم میں جو حکم والے ہیں ان کا حکم مانو‘‘۔ (سورۃ النساء)
اللہ تعالی اپنے کلام میں واضح طورپر بیان فرمادیا کہ جو حکم والے ہیں، ان کا بھی حکم مانو۔ اس سے تقلید مراد ہے اور اس آیت مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ’’قرآن و حدیث کے مطابق حکم کو تسلیم کریں‘‘۔ امام المحدثین حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے مقتدا و پیشوا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے واقعی شہروں اور شہریوں کو زیب و زینت عطا کی‘‘۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور شاگرد اور ناصر مذہب امام مدنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’امام ابوحنیفہ ہیں، جنھوں نے سب سے پہلے علم فقہ کی تدوین کی، احادیث نبویہ کے درمیان فقہ کی مستقل کتاب لکھی، اس کی تبویب کی، اس کی ابتداء طہارت سے کی، پھر نماز، پھر دوسری عبادات، پھر معاملات کے مسائل لکھے، یہاں تک کہ فرائض پر کتاب ختم کی۔ ان کے بعد اس بارے میں امام مالک نے کام کیا اور ان کے بعد ابن جریح اور ہشام کے کام ہیں‘‘۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانے میں علم کا لوہا منوایا تھا۔ علم و فکر، تدبیر و تدبر، فضل و کمال، فقہ و حدیث، مناظرہ و مباحثہ کے ذریعہ اور قانون اسلامی کی تدوین کا جو کارنامہ انجام دیا ہے، تا قیام قیامت بھلایا نہیں جاسکتا۔ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے شریعت اسلامیہ کے وہ اصول مرتب کئے، جو مقبول خلائق ہوئے اور شریعت مطہرہ کی ہمہ گیری کا ذریعہ بنے۔ آپ کی شان اور علمی و عملی کمالات کو بڑے بڑے محدثین و فقیہ، مشائخ و صوفیہ اور تلامذہ و اساتذہ نے بھی تسلیم کئے، حتی کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’فقہ میں سب لوگ امام اعظم ابوحنیفہ کے محتاج ہیں‘‘۔ آپ نے مزید فرمایا کہ ’’امام اعظم ابوحنیفہ ان لوگوں میں سے تھے، جن کو فقہ میں موافقت حق عطا کی گئی‘‘۔
مدینہ منورہ میں حضرت امام باقر رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات ہوئی۔ ایک صاحب نے تعارف کروایا۔ حضرت امام باقر نے فرمایا ’’اچھا آپ وہی ہیں، جو قیاس کرکے میرے جد کریم کی احادیث رد کرتے ہیں؟‘‘۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے عرض کیا ’’معاذاللہ! کون رد کرسکتا ہے؟ حضور اگر اجازت دیں تو کچھ عرض کروں‘‘۔ اجازت کے بعد حضرت امام اعظم نے عرض کیا ’’حضور! مرد ضعیف ہے یا عورت؟‘‘۔ حضرت امام باقر نے ارشاد فرمایا ’’عورت‘‘۔ عرض کیا ’’وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ ہے یا عورت کا؟‘‘۔ ارشاد فرمایا ’’مرد کا‘‘۔ عرض کیا ’’میں قیاس سے حکم کرتا تو عورت کو مرد کا دونا حصہ دینے کا حکم دیتا‘‘۔
پھر عرض کیا ’’نماز افضل ہے یا روزہ؟‘‘۔ ارشاد فرمایا ’’نماز‘‘۔ عرض کیا ’’قیاس یہ چاہتا ہے کہ حائضہ پر نماز کی قضا بدرجۂ اولیٰ ہونی چاہئے۔ اگر قیاس کرتا تو یہ حکم دیتا کہ حائضہ نماز کی قضا کرے‘‘۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے پھر عرض کیا ’’منی کی ناپاکی شدید تر ہے یا پیشاب کی؟‘‘۔ حضرت امام باقر رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ’’پیشاب کی‘‘۔ عرض کیا ’’قیاس سے کام لیتا تو پیشاب کے بعد غسل کا حکم بدرجۂ اولیٰ دیتا‘‘۔
مذکورہ سوالات اور جوابات کے بعد حضرت امام باقر رحمۃ اللہ علیہ اتنا خوش ہوئے کہ اٹھ کر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی پیشانی چوم لی۔ اس کے بعد ایک مدت تک حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام باقر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہ کر فقہ و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
ایک موقع پر حضرت امام باقر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ’’یہ ابوحنیفہ ہیں، جو اپنے شہر کے سب سے بڑے فقیہ ہیں‘‘۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ وصال ۲؍ شعبان المعظم ۱۵۰ھ ہے۔