فقراء پر ظلم کرنااہل جنت کی پہچان نہیں ہے

سید زبیر ہاشمی، مدرس جامعہ نظامیہ

انسان خلیفۃ اﷲ فی الارض ہے، جب اﷲ رب العزت نے انسان کو اِس روئے زمین پر اپنا خلیفہ یعنی جانشین بنایا تو فرشتوں نے یہی عرض کیا تھا کہ ائے رب تبارک وتعالیٰ : کیا تو ایسے کو اپنا جانشین بناتا ہے جو زمین پر فساد مچاتا اور خون بہاتا ہے، جبکہ ہم تو تیری پاکی و تسبیح بیان کرتے ہیں، اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا! اے فرشتو: بیشک جو میں جانتا ہوں وہ تم سب نہیں جانتے۔ الغرض مالک کُل نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا مقصد ظاہر کردیا کہ وہ اﷲ رب العزت کی ہمیشہ اطاعت اور عبادت کرتے رہے۔ اور دنیائے فانی امتحان کا مقام ہے، مصیبتیں، مشقتیں آتی رہتی ہیں اس پر جو بھی صبر کریگا یقینا وہ کامیاب ہوجائیگا۔

اگر اﷲ رب العزت کسی کو غریب، کمزور، لاچار بنایا ہے تو سمجھ لینا کہ اس کے لئے یہ ایک آزمائش کا وقت ہے سمجھ کر صبر کرتے ہوئے اس پر استقامت کے ساتھ رہنے کو ترجیح دینا ہی حقیقی بندے کی شناخت ہے۔اور یہی جنتی لوگوں کی پہچان بتلائی گئی۔ برخلاف اِس کے جو جھگڑالو، طاقت کا غلط استعمال کرنے والا، لوگوں پر ظلم کرنے والا، دوسروں کی مصیبت پر خوش ہونے والا، غرور و تکبر کو اختیار کرنے والا ہوتا ہے وہ حقیقت میں طاقتور نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کا نافرمان ہوتا ہے۔ اور یہی دوزخی لوگوں کی پہچان بتلائی گئی ہے۔ اسی لئے ہمیں چاہئے کہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث شریفہ کا بغور مطالعہ کرتے رہیں تاکہ کمزور اور طاقتور میں فرق محسوس کرسکیں۔ جنت میں کون داخل ہونگے اور دوزخ میں کون داخل ہونگے اس کے متعلق احادیث شریفہ ملاحظہ ہو:

۱ } ’’حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کروائے تو نماز میں تخفیف کرے کیونکہ اُن میں بچے، بوڑھے، کمزور اور بیمار بھی ہوسکتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی تنہا نماز پڑھے تو پھر جس طرح چاہے پڑھے‘‘۔ }متفق علیہ} {از: الوفا}

۲ } ’’حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے جنت کا مشاہدہ کیا تو میں نے اُس میں اکثریت فقراء کی دیکھی… ‘‘ {بخاری شریف، مسلم شریف}

۳ } ’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مرتبہ دوزخ اور جنت میں مباحثہ ہوا، دوزخ نے کہا: مجھے جبّاروں اور متکبروں کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے، جنت نے کہا: مجھے کیا ہوا ہے کہ مجھ میں تو صرف ضعیف، لاچار اور عاجز لوگ ہی داخل ہوں گے۔ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تم میری رحمت ہو، میں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا تمہارے ذریعہ رحمت کروں گا اور دوزخ سے فرمایا: تم میرا عذاب ہو، میں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا تمہارے ذریعہ سے عذاب دوں گا اور تم میں سے ہر ایک کے لئے بھرنا لازم ہے‘‘۔ {متفق علیہ}

۴ } ’’حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضور نبی محتشم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کیا میں تمہیں اہل جنت کو پہچان نہ بتاؤں؟ ہر کمزور اور حقیر سمجھا جانے والا شخص، اگر وہ اﷲ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اﷲ تعالیٰ اسے ضرور سچا کردیتا ہے۔ کیا میں تمہیں دوزخیوں کی پہچان نہ بتاؤں؟ (بتلایا گیا) ہر سخت مزاج، جھگڑالو اور مغرور شخص‘‘۔ {متفق علیہ}

۵ } ’’حضرت ابو موسی اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ دینا لازم ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے: یا رسول اﷲ ! جس میں طاقت نہ ہو؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ہاتھ سے کام کرے خود بھی نفع حاصل کرے اور صدقہ بھی دے۔انہوں نے عرض کیا: اگر یہ بھی نہ ہوسکے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر مظلوم حاجت مند کی مدد کرے۔ انہوں نے عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کرسکے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: نیکی کے کام کرے اور برے کاموں سے رکا رہے، اُس کے لئے یہی صدقہ ہے‘‘۔ {متفق علیہ}

۶ } ’’حضرت مصعب بن سعد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ انہیں ان لوگوں پر فضیلت ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یادرکھو تمہارے کمزور اور ضعیف لوگوں کے وسیلہ سے ہی تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور ان کے وسیلہ سے ہی تمہیں رزق دیا جاتا ہے‘‘۔ {بخاری شریف}

امام نسائی کی روایت میں ہے : ’’حضور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : اﷲ سبحانہ وتعالیٰ اس امت کی مدد اس امت کے ناتواں اور کمزور افراد کی دعاؤں، نمازوں اور اخلاص کی بدولت کرتا ہے‘‘۔

۷ } ’’حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ اطراف مدینہ کے گاؤں میں سے ایک عورت بیمار ہوئی جو مفلس اور نادار تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین سے اُس کا حال دریافت فرماتے رہتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ فوت ہوجائے تو میرے نماز جنازہ پڑھائے بغیر اُسے دفن نہ کرنا۔ وہ فوت ہوگئی تو لوگ عشاء کے بعد اُسے مدینہ منورہ لائے تو حضور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو محو استراحت پایا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور اُس کی نماز جنازہ پڑھ کر اُسے جنت البقیع میں دفن کردیا۔ صبح جب صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس عورت کا حال دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! اسے تو دفن کردیا گیا ہے۔ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے لیکن آپ استراحت فرماتھے۔ ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اس غریب عورت کی قبر کی نشاندہی کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین نے آپ علیہ السلام کے پیچھے صف بنائی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیریں ارشاد فرمائیں‘‘۔ {نسائی شریف}
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@yahoo.com