مفتی سید صادق محی الدین فہیم
اس بات کو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ تہذیب، اخلاق، تمدن، انسانیت، شرافت، نیکی، بھلائی اور خیرخواہی فطرت کا اصل حصہ ہیں۔ تعلیم سے جس میں جلا پیدا ہوتی ہے، اس لئے تعلیم ایک انسان کے لئے بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیم سے تہذیب و تمدن کا رشتہ جڑا ہوا ہے، جہاں تعلیم ہوگی وہاں انسانیت زندہ ہوگی۔ حضرت نبی پاک سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے تک جہالت کا دور دورہ تھا۔ دور جاہلیت کی پہچان علم کے فقدان سے ہے۔ اسلام وہ دین ہے، جس نے اپنی پہلی وحی میں علم و قلم کا ذکر فرماکر لکھنے پڑھنے کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں جس علم کی حوصلہ افزائی ملتی ہے، وہ علم نافع ہے۔ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو قرآن پاک نازل ہوا، اس کی ایک معجزانہ شان یہ ہے کہ وہ علوم و فنون کا گنجینہ اور معارف و اسرار کا خزینہ ہے۔
بہ اعتبار لغت علم دراصل جہل کی ضد ہے۔ علم کی اہمیت کے پیش نظر حضرت سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی درسگاہ مکۃ المکرمہ میں قائم فرمائی اور جب آپﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو وہاں سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی گئی اور اس مبارک مسجد میں پہلی درسگاہ صفہ قائم کی گئی۔ اکابر و اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تحصیل علم کے لئے اس عظیم درسگاہ سے اپنے آپ کو وابستہ کرلیا، جہاں کتاب و سنت کی تعلیم ہوتی۔ یقیناً کتاب و سنت کا علم مقصود و مطلوب ہے۔ اس میں بھی ایک درجہ فرض کفایہ کا ہے کہ امت مسلمہ کی ایک اچھی خاصی جماعت پوری گہرائی و بصیرت کے ساتھ کتاب و سنت کے علوم کی تحصیل کرے اور یہ کام علوم اسلامیہ کے اہم مراکز علمی اور ان میں موجود باصلاحیت و ماہر فن علماء سے نسبت قائم کئے بغیر بظاہر ممکن نہیں۔ تحصیل علم کے بعد ان کا فرض یہ ہے کہ پھر وہ اپنی قوم و ملت میں وعظ و ارشاد کا فرض پورا کریں اور ان کو ڈرائیں، یعنی معروف کا حکم دیں اور منکر سے ان کو منع کریں، تاکہ وہ غلط راہ پر چل پڑنے سے اپنے آپ کو بچائیں۔ دوسرا درجہ فرض عین کا ہے، جو ساری امت مسلمہ پر فرض ہے۔ فرض کفایہ کی ذمہ داری کو پورا کرکے جن علماء نے علوم اسلامیہ میں کمال حاصل کیا ہے، وہ قوم و ملت کے عام افراد کو سارے بنیادی اعتقادات و احکامات سے روشناس کرائیں، جو بنیادی طورپر ہر ایک مسلم کے لئے لازم ہیں۔
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے علم کے کئی اقسام بیان کئے ہیں اور اس پر مفصل کلام کیا ہے۔ ان سب کا نچوڑ یہی ہے کہ علوم کا دائرہ صرف شرعی احکام تک محدود نہیں، بلکہ وہ علوم بھی مطلوب ہیں، جن سے دنیاوی اغراض وابستہ ہیں، جیسے علم طلب، علم ریاضی اور دیگر ضروری علوم کہ ان کی تحصیل بھی مباح اور محمود ہے۔ انسانی سماج بنیادی ضروری امور کی انجام دہی کے لئے درکار علوم سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔
بعض علماء نے علوم کی تین قسمیں بتائی ہیں، ان میں سے ایک علم نافع ہے، جس کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب و ضروری ہے اور یہ اپنے معبود کی پہچان اور اللہ سبحانہ و تعالی کی پیدا کردہ باقی دیگر اشیاء کی معرفت کا علم مراد ہے اور اسی میں حلال و حرام کی معرفت، اوامر و نواہی کا علم بھی شامل ہے، یہ اس لئے کہ سارے انبیاء کرام کی بعثت اس علم کے ساتھ ہوئی ہے۔ دوسرے وہ علم جس سے اجتناب لازم ہے، وہ جادو، فلسفہ، طلسمات اور نجوم کا علم ہے۔ البتہ علم نجوم و فلکیات سے اس قدر آگہی کہ جس سے اوقات نماز، طلوع فجر، سمت قبلہ کی رہبری ہو مستثنی ہے۔ تیسرے وہ علم جس سے آخرت کے طلبگار کو کوئی نفع نہ ہو اور جس سے عمر عزیز کے قیمتی لمحات ضائع ہوتے ہوں اور جس سے آخرت میں کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو، جیسے علم جدل و مناظرہ وغیرہ کہ اس میں اشتغال بھی اسلام میں روا نہیں۔ (ہندیہ۵؍۳۷۸)
موجودہ دور متقاضی ہے کہ علوم اسلامیہ کی تحصیل کے ساتھ عصری علوم میں بھی کمال درجے کا ادراک حاصل کیا جائے۔ اس وقت دنیا کو علم و فن کے تمام شعبوں میں ماہرین کی بڑی ضرورت ہے۔ ملت اسلامیہ کے ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہ اس کی فکر کریں، علم اسلامیہ کی بامعنی اعلی درسگاہیں قائم کرنے کے ساتھ عصری علوم کی بھی اعلی درسگاہیں قائم کی جائیں اور ہر دو شعبوں میں ملت کے ذہین و فطین نوجوانوں کو تیار کیا جائے۔
ایک اہم سوال اس وقت موجودہ دور کی عصری درسگاہوں کا ہے، جو مغرب زدہ ہیں۔ ان کی مغرب زدگی نے تہذیب و تمدن کو خیرباد کردیا ہے۔ اخلاق و انسانیت سے عاری یہ درسگاہیں مطلوب انسان سماج کو نہیں دے پا رہی ہیں۔ ان درسگاہوں میں اخلاقی زوال کے سارے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ مخلوط تعلیم نے انسانی اقدار کو پامال کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ مذہب سے دوری اور اخلاق سے عاری تعلیم نے اخلاقی خرابی کے کئے راستے بنائے ہیں، جس کی وجہ سے منشیات کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ خود غرضی اس قدر عام ہو گئی ہے کہ غیر تو غیر اپنوں کے لئے بھی دل میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ ان حالات کے پس منظر میں ترکی حکومت نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے، اس نے عصری درسگاہوں میں عصری علوم کے ساتھ اسلامی و اخلاقی تعلیم کو بھی جوڑا ہے، جس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں اور بکثرت عوام اس طرف رجوع ہو رہے ہیں۔ البتہ بعض مغرب زدہ مذہب بیزار افراد کو یہ تبدیلی گوارہ نہیں ہے اور وہ اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ دراصل مغرب زدہ تہذیب نے مذہب و اخلاق سے دوری کا نام ترقی رکھ لیا ہے، جب کہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔